دشت ميں اک طلسم آب کے ساتھ
دور تک ہم گئے سراب کے ساتھ
پھر خزاں آئ اور خزاں کے بعد
خار کھلنے لگے گلاب کے ساتھ
رات بھر ٹوٹتي ہوئ نينديں
جڑ گئيں سحر ماہتاب کے ساتھ
ہم سدا کي بجھے ہوئے تھے
وہ تھا پہلي سي آب و تاب کے ساتھ
چھوٹي عمروں کي پہلي پہلي بات
کچھ تکلف سے کچھ حجاب کے ساتھ
اور پھر يہ نگاہ خيرہ بھي
ڈوب جائے گي آفتاب کے ساتھ
رات کي طشتري ميں رکھي ہيں
ميري آنکھيں کسي کے خواب کے ساتھ
اس گلي ميں نہ کيسے کوئي جائے
شام کو اس دل ِ خراب کے ساتھ
يہ فقط رسم ہي نہيں اے دوست
دل بھي شامل ہے انتساب کے ساتھ
***
---------- Post added at 10:15 AM ---------- Previous post was at 10:13 AM ----------
رنگ آنے لگا ہے محفل پر
خامشي چھا رہي ہے اس دل پر
شام اتري ہے جل پري کي طرح
روشني ہو گئي ہے ساحل پر
جان خود اس کي نذر کرتے ہيں
کيا بھروسا ہے اپنے قاتل پر
راستون سے جڑے ہوئے رستے
کون رکتا ہے سنگ ِ منزل پر
زيست کے راز ہائے گونا گوں
انحصار ايک چشم غافل پر
دشت ميں رات ہے اداسي ہے
قيس پر، کارواں پہ، محمل پر
غور کرتے ہيں مسکراتے ہيں
ايک کے بعد ايک مشکل پر
تم کہاں، ہم قصور وار ہوئے
اپنے اک اعتبار باطل پر
عشق کي انتہا اگر غم ہے
ہم بھي نازاں ہيں اپنے حاصل پر
***
---------- Post added at 10:16 AM ---------- Previous post was at 10:15 AM ----------
وہ ستارہ ساز آنکھيں
وہ ستارہ ساز آنکھيں
مجھے دور سے جو ديکھيں
تو مرے بدن ميں جاگے
کسي روشني کي خواہش
کسي آرزو کا جادو
کسي حسن کي تمنا
کسي عشق کا تقاضا
مرے بےقرار دل کو
بڑي خامشي سے چھو لے
کوئ نرم رو اداسي
کوئ موج زندگي کي
کوئ لہر سر خوشي کي
کوئ خوش گوار جھونکا
اسي آسماں کے نيچے
اسي بے کراں خلا ميں
کہيں ايک سرزميں ہے
جو تہي رہي نمي سے
رہي روشني سے عاري
رہي دور زندگي سے
نہيں کوئ اس کا سورج
نہ کوئ مدار اس کا
اسي گمشدہ خلا سے
کسي منزل خبر کو
کسي نيند کے سفر ميں
کسي خواب مختصر ميں
کبھي يوں ہي بے ارادہ
کبھي يوں ہي اک نظر ميں
جو کيا کوئ اشارہ
وہ ستارہ ساز آنکھيں
مجھے کر گئيں ستارہ
***
---------- Post added at 10:17 AM ---------- Previous post was at 10:16 AM ----------
ميں تمہارے فسانے ميں داخل ہوئي
شام کي ملگجي روشني
راستوں کے کناروں پہ پھيلي ہوئي تھي
فضا، زندگي کي اُداسي سے لبريز اور زرد تھي
دُور تک ايک نيلے تسلسل ميں بہتي ہوئي نم ہَوا
سرد تھي
آسماں نے زميں کي طرف سر جُھکايا نہيں تھا
ابھي اختِرشام نے اپنا چہرہ دِکھايا نہيں تھا
کہ جب ميں نے بيکار دنيا کے ہنگام سے اپنا دامن چُھڑايا
دلِ مضطرب کو دِلاسا ديا
آگے جانے کي جلدي ميں
جنگل پہاڑ اور دريا
کسي کو پلٹ کر نہ ديکھا
کہيں وقت کي ابتدائي حدوں پر کھڑے
اپنے پتھريلے ماضي کي جانب
بس اک الوداعي اشارہ کيا
خواب کا ہاتھ تھاما
نئے عزم سے سر کو اُونچا کيا
اور تمہارے فسانے ميں داخل ہوئي
شام کي ملگجي روشني راستوں کے کناروں پہ
اُس پَل تھمي رہ گئي
زندگي کي اُداسي سے لبريز ساري فضا
دم بخود
اور ہَوا اپنے پاؤں پہ جيسے جمي رہ گئي
***
---------- Post added at 10:19 AM ---------- Previous post was at 10:17 AM ----------
ميں تمہارے عکس کي آرزو ميں بس آٰ ئينہ ہي بني رہي
کبھي تم نہ سامنے آ سکے،کبھي مجھ پہ گرد پڑي رہي
وہ عجيب شام تھي،آج تک ميرے دل ميں اس کا ملال ھے
ميري طرح جو تيري منتظر،تيرے راستے ميں کھڑي رھي
کبھي وقف ہجر ميں ہو گئ کبھي خواب وصل ميں کھو گئ
ميں فقير عشق بني رہي، ميں اسير ياد ہوئ رہي
بڑي خامشي سے سرک کے پھر مرے دل کے گرد لپٹ گئ
وہ رداےء ابر سپيد جو ، سر کوہسار تني رہي
ہوئ اس سے جب ميري بات بھي،تھي شريک درد وہ ذات بھي
تو نہ جانے کون سي چيز کي ميري زندگي ميں کمي رہي
***
---------- Post added at 10:19 AM ---------- Previous post was at 10:19 AM ----------
نہ شوق ہے، نہ تمنا، نہ ياد ہے دل ميں
کہ مستقل کسي غم کي نہاد ہے دل ميں
ہے الف ليلہ وليلہ سي زندگي در پيش
سو جاگتي ہوئ اک شہر زاد ہے دل ميں
جو ضبط چشم کے باعث نہ اشک بن پايا
اس ايک قطرہء خون کا فساد ھے دل ميں
پھر ايک شہر سبا سے بلاو ا آيا ہے
پھر ايک شوق سليماں نژاد ھے دل ميں
ہے ايک سحر دلآويز کا اسير بدن
تو جال بنتي، کوئ اور ياد ہے دل ميں
تمام خواہشيں اور حسرتيں تمام ہوئيں
مگر جو سب سے عجب تھي مراد ہے دل ميں
***
---------- Post added at 10:21 AM ---------- Previous post was at 10:19 AM ----------
آشوب
کيا آہ بھرے کوئ
جب آہ نہيں جاتي
دل سے بھي ذرا گہري
اور عرش سے کچھ اونچي
کيا نظم لکھے کوئ
جب خواب کي قيمت ميں
آدرش کي صورت ميں
کشکول گدائ کا
شاعر کو ديا جائے
اور روک ليا جاۓ
جب شعر اترنے سے
بادل سے ذرا اوپر
تاروں سے ذرا نيچے
کيا خاک لکھے کوئ
جب خاک کے ميداں پر
انگلي کو ہلانے سے
طوفان نہيں اٹھتا
جب شاخ پہ امکاں کي
اس دشت تمنا ميں
اک پھول نہيں کھلتا
رہوار نہيں رکتے
موہوم سي منزل پر
آنکھوں کے اشارے سے
اور نور کي بوندوں کي
بوچھاڑ نہيں ہوتي
اک نيلے ستارے سے
جب دل کے بلاوے پر
اس جھيل کنارے پر
پيغام نہيں آتا
اک دور کا باشندہ
اک خواب کا شہزادہ
گلفام، نہيں آتا
بستي ميں کوئ عورت
راتوں کو نہيں سوتي
جاگي ہوئ عورت کي
سوئ ہوئ قسمت پر
جب کوئ بھي ديوانہ
بے چين نہيں ہوتا
دہليز کے پتھر سے
ٹکرا کے جبيں اپني
اک شخص نہيں روتا
جب نيند کے شيدائ
خوابوں کو ترستے ہيں
اور ديکھنے کے عادي
بينائ سے ڈرتے ہيں
رہ رہ کے اندھيرے سے
آنکھوں ميں اترتے ہيں
آنکھوں کے اجالوں سے
ان پھول سے بچوں سے
کہہ دو کہ نہ اب ننگے
پاؤں سے چليں گھر ميں
اس فرش پہ مٹي کے
اب گھاس نہيں اگتي
اب سانپ نکلتے ہيں
ديوار سے اور در سے
اب نور کي بوندوں سے
مہکي ہوئ مٹي ميں
انمول اجالے کے
وہ پھول نہيں کھلتے
اب جھيل کنارے پر
بچھڑے بھي نہيں ملتے
بستي ميں کوئ عورت
راتوں کو نہيں سوتي
اور جاگنے والوں سے
اب نظم نہيں ہوتي
کيا نظم لکھے کوئ
جب جاگنے سونے ميں
پا لينے ميں،کھونے ميں
جب بات کے ہونے ميں
اور بات نہ ہونے ميں
کچھ فرق نہ رہ جاۓ
کيا بات کرے کوئ
***