امریکہ کی ایک مسجد میں ہمارا ایک فلسطینی دوست ہمیں بتا رہا تھا: اُس دن میں خود مسجد اقصیٰ میں تھا جس دن پاکستان کے ایٹمی دھماکوں پر مسجد اقصیٰ میں خوشیاں منائی جارہی تھیں۔ امام عکرمہ صبری کا چہرہ خوشی سے تمتما رہا تھا اور وہ اپنے خطبۂ جمعہ میں پاکستان کےلیے فنڈ اکٹھا کرنے کا اعلان کررہے تھے۔ ان کا کہنا تھا کہ عالمی قوتیں اب پاکستان پر پابندیاں لگائیں گی، مجھے پتہ ہے ہم مقبوضہ فلسطین کے مظلوم مسلمان پاکستان کیلئے کچھ نہیں کرسکتے مگر پاکستانیوں کے ساتھ اپنی یکجہتی کے اظہار کیلئے بیت المقدس کا باشندہ آج اگر ایک پائی بھی دے سکتا ہے تو دے، آج مسلمانوں کے پاس ایٹم بم آ چکا ہے اور امت کی ذلت کے دن ختم ہونے کو ہیں!
خدایا اس خطۂ ارضی، کہ جہاں سے ’’مسلمان‘‘ بوریوں میں بند کر کرکے کفار کو بیچا جاتا ہے اور ’’زرِمبادلہ‘‘ کا ایک اہم ذریعہ مانا جاتا ہے، اِس مقبوضہ خطے کے مسلمانوں کو شعور و ہدایت دے ،
امت کی اِس سے وابستہ امیدیں پوری کروا اور اِس کے دم سے مسجد اقصیٰ کی اجڑی ہوئی مسکراہٹیں بحال کروا۔ خدایا بیت المقدس کے ضعیف اور ناتواں ہاتھوں کی اکٹھی کی ہوئی چند پائیوں میں ہمارے لیے برکت ڈال۔۔۔ اور اِن ڈالروں کی بوریوں سے ہمیں نجات دلا جن سے ہمیں ویرانی اور نحوست کے سوا آج تک کچھ نہیں ملا۔