سرحدیں اب بدل چکیں یارو
سرحدوں کا کوئی وجود نہیں
دور مغرب میں آسماں جیسے
گر گیا ہو تہ سمندر میں
سیلِ آب بلا بلند ہوا
مردہ تاروں کو چھوڑ کر پیچھے
منظر سر بلندی افلاک
ایک ہی لقمہ زقند ہوا
ایک دست بریدہ اٹھتا ہے
بجلیاں جس کی انگلیوں میں ہیں
چاروں جانب اشارہ کرتا ہے
روشنی کی زبان بند ہوئی
تیرگی کا کھلا ہے دروازہ
مجھ کو آنے لگے نظر ہر سمت
نئی تاریکیوں کے تہ خانے
مڑ کے آئینہ دیکھتا ہوں میں
پشت ہے میرے عکس کی اس میں
اور میں ایک سائے کی صورت
خانہ آئینہ میں جاتا ہوں
جس میں اب جا چکا ہوں اور درپیش
ایک دیوارِ آب پاتا ہوں