نہ جانے ظرف تھا کم ، يا انا ذيادہ تھي
کلاہ سر سے، تو قد سے قبا ذيادہ تھي
رميدگي تھي تو پھر ختم تھا گريز اس پر
سپردگي تھي تو بے انتہا ذيادہ تھي
غرور اس کا بھي کچھ تھا جدائيوں کا سبب
کچھ اپنے سرميں بھي شائد ھوا ذيادہ تھي
وفا کي بات الگ پر جسے جسے چاھا
کسي ميں حسن، کسي ميں ادا ذيادہ تھي
فراز،، اس سے وفا مانگتا ھے جاں کے عوض
جو سچ کہيں تو ،يہ قيمت، ذرا ذيادہ تھي
regards