نیویارک: بے نظیر بھٹو قتل پر اقوام متحدہ کی تحقیقاتی رپورٹ میں قتل کی ذمہ داری مشرف حکومت، پنجاب حکومت، پنڈی انتظامیہ پر عائد کی گئی ہے۔ تحقیقاتی رپورٹ میں پیپلز پارٹی کی جانب سے بے نظیر کو فراہم کی جانے والی سیکورٹی کو بھی ناقص قرار دیاگیا ہے۔اقوام متحدہ کے تحقیقاتی کمیشن کے سربراہ ہیرالڈو مونوز نے کمیشن کے دیگر ارکان کے ہمراہ پریس کانفرنس میں رپورٹ پیش کی۔رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ مشرف حکومت نے بے نظیر بھٹو کی حفاظت کے مناسب اقدامات نہیں کئے۔ رپورٹ میں وفاقی حکومت پنجاب حکومت اور راولپنڈی انتظامیہ اور پولیس کو ذمہ دار ٹہرایا گیا ہے۔رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ پیپلز پارٹی کی طرف سے بار بار مزید سیکورٹی فراہم کرنے کے مطالبات کو نظر انداز کیا گیا۔
رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ بم دھماکے کے بعد مناسب تحقیقات نہیں کی گئیں اور جائے حادثہ سے صرف تیئس شواہد اکھٹے کئے گئے اور اسے فوری طور پر صاف کردیا گیا حالانکہ وہاں سے ہزاروں شوائد مل سکتے تھے۔ رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ اس وقت کے راولپنڈی کے سٹی پولیس افسر سعود عزیز نے بے نظیر بھٹو کی لاش کا پوسٹ مارٹم نہیں ہونے دیااور یہ عمل اعلی حکام کی مرضی کے بغیر نہیں کیا جاسکتا تھا۔پوسٹ مارٹم نہ کئے جانے سے قیمتی شواہد حاصل نہیں کئے جاسکے۔
کمیشن نے بتایا کہ اٹھائیس دسمبر کو اس وقت وزارت داخلہ کے ترجمان بریگیڈئیر چیمہ نے بغیر تحقیق کے بے نظیر بھٹو کے قتل کا الزام بیت اللہ محسود پر عائد کردیا جس کی وجہ سے درست سمت میں تحقیقات نہ ہوسکیں اور تحقیقات کا دائرہ محدود ہوگیا۔پیپلز پارٹی کی طرف سے بھی بے نظیر بھٹو کو فراہم کی گئی سیکورٹی ناقص تھی۔بے نظیر بھٹو کو القاعدہ طالبان اور جہادی عناصر سے خطرات تھے،دھمکیوں کے باجود فول پروف سیکورٹی کے انتظامات نہیں کئے گئے۔کمیشن کے ارکان نے کہا کہ حملے کے بعد بے نظیر بھٹو کو تباہ شدہ گاڑی میں لے جانے کی کوشش کی گئی جبکہ بلٹ پروف مرسڈیز میں لے جایا جاسکتا تھا۔
کمیشن نے کہا کہ کسی فرد کو قتل کا ذمے دارٹھہرانا ہمارا کام نہیں تھا۔کمیشن کا کام حقائق کو بے نقاب کرنا تھا۔قتل میں بڑے نیٹ ورک کا پیسہ اور منصوبہ شامل تھا۔کمیشن کے ارکان نے بتایا کہ صدر زرداری پر اس قتل کے حوالے سے کی جانے والی باتوں میں صداقت نہیں۔پاکستانی حکام نے ابتدا میں پانچ افراد کی گرفتاری کے بعد تفتیش روک دی۔ ہم نے رپورٹ تیس مارچ کو مکمل کرلی تھی یہ نہیں معلوم کہ حکومت نے رپورٹ جاری کرنے میں تاخیر کی درخواست کیوں کی۔
اس سے پہلے کمیشن نے تحقیقاتی رپورٹ اقوام متحدہ کے سیکریٹری جنرل بان کی مون کے حوالے کی جس کے بعد سیکریٹری جنرل نے رپورٹ اقوام متحدہ میں پاکستان کے مندوب حسین ہارون کو دی۔اقوام متحدہ کی رپورٹ ساٹھ صفحات پر مشتمل ہے ،رپورٹ میں دو سو پچاس افراد سے حقائق معلوم کئے۔ کمیشن نے اس سال فروری کے آخری ہفتے میں پاکستان کا تین روزہ آخری دورہ مکمل کیا تھا اور اس دوران کمیشن کے ارکان نے پاکستان کے صدر آصف علی زردای وزیر اعظم یوسف رضا گیلانی سینئر حکومتی ارکان اور سول سوسائٹی کے نمائندوں سے ملاقاتیں کی کمیشن نے ساڑھے نو ماہ کام کیا اور پاکستان کے تین دورے کئے۔