Abh tu shehron say khabar aati hay dewano ki اب تو شہروں سے خبر آتی ہے دیوانوں کی کوئی پہچان ہی باقی نہیں ویرانوں کی اپنی پوشاک سے ہشیار! کہ خدام قدیم دھجیاں مانگتے ہیں اپنے گریبانوں کی صنعتیں پھیلتی جاتی ہیں ، مگر اس کے ساتھ سرحدیں ٹوٹتی جاتی ہیں گلستانوں کی دل میں وہ زخم کھلے ہیں چمن کیا شے ہے گھر میں بارات سی اتری ہے گلدانوں کی ان کو کیا فکر کہ میں پار لگا ، یا ڈوبا بحث کرتے رہے ساحل پہ جو طوفانوں کی تیری رحمت تو مسلّم ہے مگر یہ تو بتا کون بجلی کو خبر دیتا ہے کاشانوں کی مقبرے بنتے ہیں زندوں کے مکانوں سے بلند کِس قدر اوج پہ تکریم ہے انسانوں کی ایک اِک یاد کے ہاتھوں پہ چراغوں بھرے طشت کعبۂ دل کی فضا ہے کہ صنم خانوں کی • — — — — — — — — — — — — • احمد ندیم قاسمی |
All times are GMT +5. The time now is 01:32 PM. |
Powered by vBulletin® Version 3.8.2
Copyright ©2000 - 2024, Jelsoft Enterprises Ltd.