BZU PAGES: Find Presentations, Reports, Student's Assignments and Daily Discussion; Bahauddin Zakariya University Multan

BZU PAGES: Find Presentations, Reports, Student's Assignments and Daily Discussion; Bahauddin Zakariya University Multan (http://bzupages.com/)
-   Urdu Articles (http://bzupages.com/320-urdu-articles/)
-   -   Laikin Khuda ko kia mila (http://bzupages.com/f320/laikin-khuda-ko-kia-mila-20785/)

.BZU. 07-11-2011 12:08 PM

Laikin Khuda ko kia mila
 
1 Attachment(s)
لیکن خدا کو کیا ملا؟
وہ خدا جو چاہتا ہے کہ چھری پہلے لالچی نفس پر چلے۔

Quote:

"وہ خدا جس نے بار بار سمجھانے کی کوشش کی کہ اسے صرف پرہیز گاروں کی قربانی ہی قبول ہے۔ وہ خدا جو کہتا ہے کہ اسے جانور کے گوشت یا خون کی نہیں بلکہ قربانی کرنے والے کے اخلاص کی ضرورت ہے"
روایت کے مطابق جب چار ہزار برس قبل خدا نے یہ دیکھ لیا کہ ابراہیم کی نیّت میں کوئی کھوٹ نہیں اور بیٹا بھی باپ کے فرمان پر قربان ہونے کے لیے دل سے آمادہ ہے تو خدا نے اس امتحان میں باپ اور بیٹے کو کامیاب قرار دیتے ہوئے قربانی کی علامت کے طور پر ایک مینڈھا چھری تلے بھیج دیا۔
ہر سال اس دنیا کے مسلمان دس کروڑ سے زائد جانور عیدالضحی کے تین دنوں میں قربان کرتے ہیں۔ان میں سے لگ بھگ پچاس لاکھ مینڈھے، بکرے، بیل، گائے اور اونٹ وغیرہ پاکستان میں زبح کیے جاتے ہیں۔آج کے حساب سے ان جانوروں کی خریداری پر پاکستانی شہری کم ازکم ایک کھرب روپے خرچ کرتے ہیں۔ مزید پندرہ ارب روپے قربانی سے جڑے لازمی ذیلی اخراجات اور محصولات کی مد میں شمار کر لیجئے۔ مزید دس ارب روپے شاپنگ اور دیگر متفرقات کی مد میں جوڑ لیجئے۔ یوں صرف عید الضحی کے تین دنوں کی معیشت پاکستان میں سوا کھرب روپے کی گردش پیدا کرتی ہے۔
عید الضحی پر ہر ایک کو کچھ نا کچھ مل جاتا ہے۔ٹرانپسورٹرز کو جانور ڈھونے کا منہ مانگا کرایہ، چُنگی اور بکرا پیڑھی کی انتظامیہ کو اپنی مرضی کا ٹیکس، جانور کے مالک کو دُگنی تگنی قیمت، پانی اور چارہ فروخت کرنے والوں کو منہ مانگے دام، چھریاں تیز کرنے والے کو ہر دھار کے الگ پیسے، قصائی کو وی وی آئی پی سٹیٹس، سیاسی و مذہبی گروہوں کو تحکمانہ اپیل کے عوض کھالیں، کلاشنکوف برداروں کو مفت کے جانور اغوا کرنے کا نادر موقع، ڈیپ فریزر، کوئلے اور بار بی کیو کے چولہے اور خدمات فراہم کرنے والوں کو مرضی کے پیسے، پیشہ ور بھکاری گروہوں کو اوجھڑی، گوشت اور سری پائے، صاحبِ حیثیت کو بیس لاکھ کا بیل یا تین لاکھ کا اونٹ یا اسی ہزار روپے کا لحیم شحیم بکرا خریدنے پر رشک و تعریف کے ڈونگڑے، بچوں کو قربانی کے جانور سجانے اور گلیوں میں دوڑانے کی مصروفیت اور سفید پوش ہمسائیوں اور رشتے داروں کو ایک یا دو وقت کے لیے خالص گوشت نصیب ہو جاتا ہے۔
لیکن اس سارے کاروبارِ قربانی میں سے خدا کو کیا ملتا ہے ؟
وہ خدا جس نے بار بار سمجھانے کی کوشش کی کہ اسے صرف پرہیز گاروں کی قربانی ہی قبول ہے۔ وہ خدا جو کہتا ہے کہ اسے جانور کے گوشت یا خون کی نہیں بلکہ قربانی کرنے والے کے اخلاص کی ضرورت ہے۔ وہ خدا جو کہتا ہے کہ رمضان کی آخری دس راتیں اس تک پہنچنے کے لیے اہم ہیں اسی طرح ذی الحج کے پہلے دس دن کے اعمال بھی اس کی قربت کے لیے اتنے ہی اہم ہیں۔
وہ خدا جس کی خواہش ہے کہ چھری جانور کی گردن پر بعد میں اور لالچی نفس پر پہلے چلے۔ مگر اتنی تکرار کے بعد بھی خدا کے ہاتھ کیا آتا ہے، کتنا آتا ہے اور کہاں سے آتا ہے؟
روزِ حساب جب میرا پیش ہو دفترِ عمل
آپ بھی شرمسار ہو، مجھ کو بھی شرمسار کر
( اقبال)


All times are GMT +5. The time now is 01:58 PM.

Powered by vBulletin® Version 3.8.2
Copyright ©2000 - 2024, Jelsoft Enterprises Ltd.