BZU PAGES: Find Presentations, Reports, Student's Assignments and Daily Discussion; Bahauddin Zakariya University Multan Right Header

HOME BZU Mail Box Online Games Radio and TV Cricket All Albums
Go Back   BZU PAGES: Find Presentations, Reports, Student's Assignments and Daily Discussion; Bahauddin Zakariya University Multan > Entertainment & Enjoyment > Chit Chat > Stories,Novels & Kahaniyan

Notices

Stories,Novels & Kahaniyan Share and Read All sort of Stories/Novels Online at bzupages.com


Reply
 
Thread Tools Search this Thread Rate Thread Display Modes
Old 07-12-2011, 12:24 AM   #1
Saniha Laal Masjid, Hum per kia Guzri, Ume Hasan ki Kahani
.BZU. .BZU. is offline 07-12-2011, 12:24 AM

لال مسجد اپریشن میں ہم پر کیا گزری؟ ام حسان پہلی بار اپنی کہانی سنا رہی رہیں۔
Name:  saniha lal masjid.jpg
Views: 911
Size:  87.5 KB
یوں تو میری زندگی اسی دن سے آزمائشوں اور امتحانات کی نذر ہو گئی تھی جس دن سے مجھے مولانا عبداللہ شہیدؒ کے اہل عزیمت خانوادے کا ایک فرد ہونے کا اعزاز حاصل ہوا۔میں بہت ناز و نعم میں پلی تھی لیکن جس گھر میں آئی یہاں دین کے لیے اپنا سب کچھ نچھاور کر دینے کا درس کچھ اس انداز سے ملا کہ حق کی سر بلندی اور دین کی بقا کی خاطر اپنا سب کچھ دائو پر لگانے کا تہیہ کرلیا۔میرے سامنے مولانا محمد عبداللہ شہید کو گولیوں سے چھلنی کیا گیا۔مولانا عبدالعزیز صاحب کو حق گوئی کی پاداش میں جھوٹے مقدمات میں الجھا کر اشتہاری بنا یا گیا۔ہمارے مدرسے پر دو دفعہ پولیس نے یلغار کی۔ہماری سینکڑوں بچیوں کو زخی کیا گیا…بد ترین تشدد کا نشانہ بنا یا گیا،لیکن حالیہ سانحہ لال مسجد نے تو وہ سارے غم بھلا دیئے…اف اللہ!میں نے تو کبھی سوچا تک نہیں تھا۔میں نے کیا کسی نے بھی یہ نہیں سوچا ہوگا کہ اسلام کے نام پر آباد ہونے والا شہر کو فہ بن جائے گا اور اس میں کر بلا بپا کر دی جائے گی۔
لال مسجد تحریک کی وجہ مسجد امیر حمزہ کی شہادت تھی۔اسلام آباد میں یکے بعد دیگر ے سات مساجد کو شہید کر دیا گیا۔ہم دیکھتے رہے کہ مساجد کی شہادت کے بعد کچھ دن تک تو اخبارات میںا ن کا تذکرہ ہوتا پھر لوگ بھول جاتے۔اس صورتحال پر ہم اندر ہی اندر کڑھتے رہتے۔
اس سال کے آغاز میں ہوایوں کہ پہلے تو ہماری جامعہ سیدہ حفصہ رضی اللہ عنہا کو اوپر تلے نوٹس ملنے لگے،پھر80سے زائد مساجد کی ایک لسٹ منظر عام پر آگئی کہ انہیں العیاذ اللہ شہید کیا جائے گا۔80سے زائد مساجد کی شہادت کے نا پاک منصوبے نے ہماری نیندیں اڑادیں۔مولانا محمد عبدالعزیز صاحب کو میں نے زندگی میں اتنا دکھی اور فکر مند نہیں دیکھا تھا جتنا اس موقع پر مولانا کی کیفیت تھی حتیٰ کہ اپنے والد محترم مولانا م محمد عبداللہ شہیدؒ کی شہادت جیسے عظیم سانحے کے وقت بھی مو لانا اس کیفیت سے دوچار نہیں تھے جو کیفیت مسجد امیر حمزہ کی شہادت کی بعد مولانا پر طاری ہوگئی تھی۔میں نے بھی اباجان کو اپنی آنکھوں کے سامنے شہید ہوتے ہوئے دیکھا تھا۔آپ اندازہ لگا سکتے ہیں کہ ایک عورت اور ایک بیٹی ہونے کے ناطے مولانا محمد عبداللہ شہیدؒ جیسے شفیق اور مہربان ابا جان کی شہادت کا میرے دل و دماغ پر کیا اثر پڑا ہوگا لیکن اس وقت تو چونکہ اس بات کی خوشی اور تسلی بھی تھی کہ چلو ابا جیؒ کو شہادت کا رتبہ اور عزاز مل گیا لیکن مسجد امیر حمزہؓ کی شہادت کی خبر نے مجھے جتنا دکھ دیا…مسجد امیر حمزہؓ کی بکھری ہوئی اینٹیں دیکھ کر میں جس قدر روئی ابا جان کی شہادت پر بھی شاید میں اتنا نہ روئی ہوں گی۔مجھے رات بھر نیند نہ آئی۔مولانا صاحب کی کیفیت ایسی تھی کہ مجھے ان پر ترس آنے لگا تھا…وہ اس رات کے آخری پہر مصلے پر ہچکیاں لے لے کر روتے رہے۔یہ یکم محرم الحرام1428ہجری بمطابق21جنوری2007ء کی صبح تھی…میں جو نہی مدرسے پہنچی تو کچھ طالبات بھاگی بھاگی میرے پاس آئیں اور بتانے لگیں کہ عالمیہ(m.a)اورعالیہ(b.a)کلاس کی کچھ سینئر طلبات نے چند معلمات کے ساتھ مل کر اپنے غم و غصے کے اظہار اور احتجاج ریکارڈ کرانے کے لئے مدرسے سے متصل لائبریری کو احتجاجاً یر غمال بنا لیا ہے۔یہ صورتحال میرے لئے بڑی تشویشناک تھی۔میں فوراً ان طالبات کے پاس پہنچی۔جب میں نے انہیں واپس مدرسے آنے کا کہا تو وہ روپڑیں، ضد پر اتر آئیں اور کہنے لگیں:
’’آپی جان!اب خداراہمیں آپ گناہ گار اور مجبور نہ کرنا…اگر آج بھی ہم نے اللہ کے گھر کی شہادت پر کسی ردِ عمل کا اظہار نہ کیاتو ہمارے کلیجے درد کی شدت کی وجہ سے پھٹ جائیں گے۔‘‘
میں حیران رہ گئی وہ طالبات جو عام حالات میں میرے سامنے بات تک نہیں کرتی تھیں آج وہ اپنے دل کی بھڑاس نکال رہی تھیں۔ان کی بات دینی، شرعی اور عقلی لحاظ سے معقول تھی، میں شش و پنج میں پڑگئی، مولانا محمد عبدالعزیز صاحب سے رابطہ کیا، انہیں اس صورتِ حال سے آگاہ کیا اور طالبات کا موقف ان کے سامنے بیان کیا تو مولانا صاحب نے کہا:
’’میں آج شب استخارہ کر تا رہا لیکن مجھے کچھ سمجھ نہیں آرہی تھی کہ مساجد کی شہادت کا یہ سلسلہ کیونکر روکا جائے، اب ان بچیوں نے اگر یہ اقدام کرہی لیا ہے تو شاید اللہ کی طرف سے اس میں کوئی خیر مقدر ہو…تاہم میں اس بارے میں غازی بھائی سے مشورہ کر کے آپ کو بتا تا ہوں۔‘‘
مولانا صاحب،غازی صاحب سے مشورہ کرنے چلے گئے، اتنے میں یہ خبر پھیل گئی، شاید غازی صاحب نے مسئلے کو افہام و تفہیم کے ذریعے حل کرنے کی نیت سے خود ہی انتظامیہ کو اطلاع کردی، تھوڑی دیر میں ضلعی انتظامیہ کے افسران اور راولپنڈی اسلام آباد کے علماء کرام تشریف لے آئے اور پھر یوں لگا جیسے کوئی بھونچال آگیا ہو۔ہماری بچیوں نے علما کرام اور ضلعی انتظامیہ پر دو ٹوک انداز میں اپنے مطالبات واضح کر دیئے اور دیگر مطالبات سمیت اس مطالبے پر زرو دیا گیا کہ:
’’جب تک شہید مساجد کی تعمیرِ نو نہیں کر دی جاتی اور جن مساجد کی شہادت کی لسٹ تیار کی گئی ہے اسے واپس نہیں لیا جاتا تب تک وہ کسی صورت اپنا احتجاج ختم کرنے کو تیار نہیں۔‘‘
طالبات کا یہ مطالبہ بالکل شرعی، آئینی اور بر حق تھا اس لئے ہم نے ان کا ساتھ دینے کا فیصلہ کر لیا کہ ٹھیک ہے یہ بچیاں اپنے مفاد یا ضروریات کی بات تو نہیں کر رہیں، نہ یہ سڑکوں پر نکلی ہیں، بلکہ ایک محفوظ چار دیواری کے اندر بیٹھ کر ایک جائز اور آئینی مطالبہ پیش کر رہی ہیں اس لیے ان کی سر پرستی کی جانی چاہیے۔لیکن بد قسمتی سے ان بچیوں کا یہ جائز اور آئینی مطالبہ تسلیم کرنے کی بجائے الٹا پروپیگنڈے کی آگ بھڑکادی گئی۔گولی کی زبان میں بات کرنے کا ڈراوا سنا یا جانے لگا۔ اعجازالحق جن کے بارے میں ہم آج تک یہ سمجھتے رہے کہ وہ مساجد و مدارس کے خیر خواہ اور دینی معاملات میں مخلص ہیں، انہوں نے عجیب منافقانہ طرزِ عمل اختیار کیا اور ہماری بچیوں پر ٹرپل ون بریگیڈ کی یلغار کی دھمکی دی۔ان ساری باتوں نے ہمارے صدمے اور غم و غصے میں اضافہ کر دیا۔پھر اعجا ز الحق نے انتہائی شاطرانہ چال چلی کہ فوراً کراچی جا کر ہمارے اکابر علمائِ کرام کو اس مسئلے میں ڈال کر انہیں بے تو قیر اور متنازعہ بنانے کی کوشش کی۔مولانا محمد عبدالعزیز صاحب اور علامہ غازی شہید نے علما کرام سے انتہائی ادب سے درخواست کی کہ وہ فی الوقت اس معاملے میں نہ پڑیں کیونکہ حکومت ان کی ساکھ بر باد کرنے اور ہمیں تنہاء کرنے کے لئے دو دھاری تلوار سے کام لے رہی ہے اور علمائِ کرام کو دھوکہ دینے کی کوشش کی جارہی ہے۔
ہمیں پہلے دن سے صرف اسی بات کا خدشہ تھا کہ اعجاز الحق مذاکرات کی آڑ میں دراصل مساجد کی شہادت کی راہ ہموار کرنا چاہتے ہیں اور ملک میں جاری بے دینی اور فحاشی و عریانی کے ایجنڈے کو مزید آگے بڑھانے کیلئے کوشاں ہیں۔ہم نے سوچا تھا کہ اگر آج ہم ان سات مساجد کو دوبارہ تعمیر کرانے میں کامیاب ہو بھی جاتے ہیں تو کل اس ملک کی باقی مساجد کے تحفظ کی ضمانت ہمیں کیسے حاصل ہوسکتی ہے…؟کیونکہ ہمارے ساتھ گزشتہ چند برسوں سے انتہائی سنگین مذاق کیا جا رہا ہے،کبھی حقوقِ نسواں بل کے نام پر بدکاری کو تحفظ فراہم کیا جا تا ہے تو ہم اس کے خلاف احتجاج کرتے ہیں…کبھی اپنے مسلمان بھائیوں کا قتلِ عام کرنے کے لئے کندھا پیش کیا جا تا ہے تو ہم اس پر جلوس نکالتے ہیں۔آخر ہم کس کس معاملے پر احتجاج کرتے اور جلوس نکالتے رہیں گے…بالآخر ہم قر آن وسنت کی روشنی میں اس نتیجے پر پہنچے کہ ان تمام مسائل کی بنیاد اور جڑ تو یہی ہے کہ اسلام کے نام اور کلمے پر قائم ہونے والے اس ملک میں اسلامی نظام کے نفاذ کی محنت اور جدوجہد کی جائے اور مطالبہ کیا جائے کہ ملک میں شریعت نافذ کی جائے۔ حکومت جو ہمارے کسی احتجاج کو خاطر میں نہ لاتی تھی اس مطالبے سے اس کے ایوانوں میں کھلبلی مچ گئی…وہ ذرائع ابلاغ جو بے حیائی کے فروغ کو اپنا فرض منصبی سمجھتے تھے وہ شریعت کے نفاذ کے مطالبات کو نمایاں جگہ دینے پر مجبور ہوگئے۔
نوجوان کے قافلے سروں پر عمامے سجائے لال مسجد کا رُخ کرنے لگے،خواتین اور مدارس و اسکول کالجز کی طالبات جامعہ سیدہ حفصہ کی طالبات کے شانہ بشانہ اٹھ کھڑی ہوئیں،پھر کیا تھا کہ ہمیں سنگین نتائج کی دھمکیاں دی جانے لگیں،ہماری مسجد اور مدرسے کا با ر بار محاصرہ کیا جانے لگا،لیکن الحمد اللہ ہر دفعہ انتظامیہ کو منہ کی کھانا پڑتی کیونکہ علمائ، طلبہ اور عوام الناس نے مسجد کے تحفظ کیلئے اپنی جانیں نچھاور کرنے کا تہیہ کر رکھا تھا۔لوگوں نے اپنے مسائل کے حل کیلئے لال مسجد کی طرف رجوع کرنا شروع کر دیا،الحمد اللہ مولانا محمد عبدالعزیز اور علامہ عبدالرشید غازی شہیدؒ نے بہت سے مصیبت زدہ بھائیوں کا درد بانٹا۔بہت سی ستم رسیدہ بہنوں کے زخموں پر مرہم رکھا…انصاف کی تلاش میں در در کی ٹھوکریں کھانے والوں کو انصاف تک رسائی میں مدد دی۔جب لوگوں کو معلوم ہوا کہ لال مسجد سے امید اور روشنی کی کرنیں نمودار ہو رہی ہیں توبے شمار نوجوانوں نے لال مسجد میں ڈیرے ڈال لیے اور اپنی زندگیاں وطنِ عزیز میں نفاذِ اسلام کی محنت کے لئے وقف کردیں۔ ہم نے دراصل سسٹم تبدیل کرنے کی جدو جہد شروع کی تھی،اس لئے وہ لوگ اپنے سارے وسائل کو جھونک کر نفاذ اسلام کی آواز کو دبانے کی کوشش کرنے لگے اور ہمارے خلاف پروپیگنڈے میں مصروف ہوگئے۔ ہمارے ساتھ جو سب سے بڑا ستم ہوا وہ یہ کہ ہمارے اپنوں کے دلوں میں ہمارے بارے میں غلط فہمیاں پیدا کر دی گئیں،ہمیں ایجنسیوں کیلئے کام کرنے کے طعنے دیئے گئے اور ہمارے اپنے بھی ہمارا ساتھ چھوڑ گئے۔ہمارے پاس ایسے بہت مواقع آئے تھے جب ہم سودے بازی کرنا چاہتے تو’’کچھ اور کچھ دو‘‘کی پالیسی اختیار کرتے تو اپنے لئے بہت کچھ لے سکتے تھے…اتنا کچھ کہ جو دوسروں کے تصور سے بھی بالا تر ہے،لیکن اللہ گواہ ہے کہ ہم نے کبھی اپنے لیے کچھ نہیں لیا۔
مولانا عبدالعزیز صاحب فر ما یا کرتے کہ:
’’ ملک اور شہر میں جگہ جگہ فحاشی کے اڈوں میں جن بچیوں پر ظلم ہو تا ہے وہ ہماری اپنی بچیوں کی طرح ہیں اور جن جوانوں کے بے راہ روی کا درس دیا جا تا ہے وہ ہمارے اپنے بچوں کی طرح ہیں‘‘
اس لئے ہم نے پہلے مرحلے میں سی ڈیز اور فحش مواد کا زہر بانٹنے والوں میں دعوت و تبلیغ کی محنت شروع کی،ہم نے برائی کے ان سر چشموں کو بند کروانے کا آغاز کیا،اللہ گواہ ہے کہ ہم نے زبردستی کسی کی نہ دوکان بند کروائی نہ کسی کی سی ڈیز نذر آتش کیں۔ہاں البتہ ایسے بے شمار خوش نصیب تھے جنہوں نے مولانا محمد عبدالعزیز صاحب اور تحریک طلباء طالبات کے نمائندوں کی دعوت سے متاثر ہو کر از خود ہی اس ناجائز و نا پاک کاروبار سے توبہ تائب ہونے کا اعلان اور فیصلہ کیا اور اپنے ہاتھوں وہ گندا مواد جلا ڈالا۔سبھی کو معلوم ہے کہ لال مسجد کے باہر ایک صاحب نے اپنی رضا ور غبت سے پندرہ لاکھ روپے مالیت کا فحش مواد نذر آتش کیا۔اسی طرح بہارہ کہو کے ایک آدمی نے اپنی ویڈیو شاپ میں موجود فحش مواد خود نذر آتش کیا تو اسے بھی گرفتار کر لیا گیا اور وہاں سے گزرتے ہوئے ہمارے طلبہ کو بھی گرفتار کر کے ان کے خلاف مقدمات بنادیئے گئے۔
فحاشی و عریانی کے خاتمے کی مہم کے دوران اسلام آباد میں واقع سیکٹر جی سکس کے مکینوں نے آکر فحاشی کے ایک اڈے کے بارے میں اپنی بے بسی اور مشکلات سے آگاہ کیا اور بتا یا کہ یہ اڈہ بد نام زمانہ نائیکہ شمیم چلارہی ہے، اس کی وجہ سے ہمارا جینا دوبھر ہو چکا ہے۔ہمارے بچے اور بچیاں بے راہ روی کے سخت خطرے سے دوچار ہیں لیکن انتظامیہ اس کے اثر و رسوخ کی وجہ سے اس نائیکہ ہر ہاتھ ڈالنے سے گریزاں ہے آپ اس کا کوئی بندوبست کریں۔ ہماری معلمات ایک دفعہ اس کو اصلاحی دعوت دینے اس کے ڈیرے پر گئیں، اس کو سمجھا یا ، خوف خدا اور فکر آخرت کا درس دیا مگر وہ بازنہ آئی…دوبارہ طالبات گئیں اور فیصلہ کن انداز سے اسے دھندہ چھوڑنے کو کہا تو وہ آگے سے اُلجھ پڑی تو طالبات یہ سوچ کر اسے مدرسے لے آئیں کہ مدرسے کے ماحول میں شاید اس کی اصلاح ہو جائے اور جی سکس کے مکین اس کی گندگی سے نجات حاصل کرلیں۔وہ نائیکہ چند روز ہمارے مدرسے میں رہی۔ہم نے اپنی طرف سے اسکی اچھی خاصی خاطر تواضع کی۔اس کے آرام کا خیال رکھا کیونکہ ہمارا مقصد اس کی اصلاح تھا۔اس نے ایک دن کہا کہ میں اپنے اس گھنائو نے فعل سے تو بہ تائب ہونا چاہتی ہوں۔ہم نے کہا بہت اچھا…پھر اس نے میڈیا کے سامنے توبہ تائب ہونے کا اعلان کیا تو ہم نے اسے چھوڑ دیا۔آنٹی شمیم کے خلاف کارروائی ہمارے احتجاج کا ایک انداز تھا اور یہ بڑا کامیاب رہا۔اگر یہ کارروائی نہ کی جاتی تو ممکن ہے انتظامیہ کے نقار خانے میں ہمارے مطالبات طوطی کی آواز ثابت ہوتے لیکن الحمد اللہ اس ایک واقعے کے بعد انتظامیہ نے خود بھی فحاشی کے بے شمار مراکز کو عبدالرشید غازی شہیدؒ کی نشان دہی پر بند کرایا اور آنٹی شمیم قبیل کے بے شمار عناصر ازخود بھی انڈر گرائونڈ چلے گئے۔
اس کے بعد ہم نے اپنا تعلیمی سلسلہ جاری رکھا۔ لیکن ہمیں مختلف حیلے بہانوں سے تنگ کیا جانے لگا۔یوں تو لال مسجد سے وابستہ سینکڑوں علماء و طلبا کو گرفتار کیا گیا لیکن کسی کی گرفتاری پر اتنے شدید ردعمل کا اظہار نہیں کیا گیا لیکن ہماری معلمات اور بچیوں کا اغواء اتنا سنگین معاملہ تھا کہ اس وقت غیرت کا تقاضہ یہ تھا کہ اس حادثے پر سخت ردِ عمل کا اظہار کیا جائے۔چنانچہ معلمات کو چھڑانے کیلئے پولیس اہلکاروں کو یر غمال بنا لیا گیا۔پولیس اہلکار خود ہی گواہی دیں گے کہ ان کے ساتھ کس حسن سلوک کا مظاہرہ کیا گیااور جب ہماری بچیوں کو رہائی ملی تب پولیس اہلکار بھی چھوڑ دیئے گئے۔
اس کے بعد’’تحریک طلباء و طالبات‘‘بڑے پر امن طریقے سے جاری رہی۔ہماری کوشش یہ تھی کہ اسلام کے نام پر حاصل کی جانے والی مملکت خدادادمیں تطہیر کا عمل جاری رہے۔ہم نے بارہا انتظامیہ سے رابطہ کیا کہ فحاشی کے مراکز بند کیے جائیں لیکن انتظامیہ ہمیشہ بے بسی کا اظہار کرتی رہی بالخصوص غیر ملکیوں کے معاملے میں تو بالکل ہی ہماری انتظامیہ کے پر جلنے لگتے تھے۔ہمیں اس بات پر بہت دکھ ہو تا کہ دینی علوم کے حصول کے لئے آنے والے غیر ملکی مہمانان رسول کیلئے تو ہمارے تمام دروازے بند ہیں اور ہم نے ان بے چاروں کو دھکے دے دے کر نکال دیا جبکہ گندگی اور بے راہ روی پھیلانے والے غیر ملکیوں پر ہم ہاتھ ڈالتے ہوئے گھبراتے ہیں۔ہمیں طبقہ اشرافیہ سے تعلق رکھنے والی بچیوں کے پیغامات ملنا شروع ہوئے اور نوجوان نسل کی بر بادی پر فکر مند درد دل رکھنے والوں نے آگاہ کرنا شروع کیا کہ کس طرح اسلام آباد میں ہوٹلز اینڈ موٹلز اور فارم ہائوسز میں داد عیش دی جاتی ہے اور ریسٹ اور گیسٹ ہائسز میں کیا کیا تماشے لگائے جاتے ہیں۔سب سے زیادہ سنگین معاملہ مساج سینٹرز کا تھا۔
اگر ان مساج سینٹرز میں صرف غیر ملکیوں کی آمد ورفت ہوتی تب بھی انہیں نظر انداز کر دیا جاتا لیکن وہاں تو معاملہ ہی بالکل مختلف تھا۔ہمارے وزارائ، اراکین اسمبلی اور بیوروکریٹ ان کے مستقل’’گاہک‘تھے۔جب ہماری کارروائیوں کی وجہ سے ان لوگوں کے مفادات پر زدپڑی تو انہوں نے لال مسجد کے خلاف فضا ہموار کرنا شروع کر دی اور بالآخر ہماری مسجد ، ہماری بچیاں اور ہمارے بچے انہیں لوگوں کے بد ترین انتقام اور ظلم و بر بریت کا نشانہ بنے۔ہم چائنیز طوائفوںکو قطعاً اپنے مدر سے میں لانے کا ارادہ نہیں رکھتے تھے بلکہ ہماری کوشش تھی کہ انتظامیہ جس طرح آئے دن مساجد اور مدارس کے خلاف کریک ڈائون کرتی ہے اس سے کہیں زیادہ ضروری ہے کہ فحاشی کے ان اڈوں کے خلاف کارروائی ہو لیکن ہم نے اپنی طرف سے آخری حد تک کوشش کر دیکھی مگر انتظامیہ کو غیر ملکی طوائفوں کا نام سن کر ہی بخار آجا تا تھا۔اس لئے انتہائی مجبوراً یہ اقدام اٹھا نا پڑا۔ہم نے ان چائنیز طوائفوں کو کوئی نقصان نہیں پہنچایا بلکہ پاک چائنہ دوستی اور خیر سگالی کے نام پر انہیں چائنیز سفیر کے حوالے کیا۔اس نے ہمارا شکریہ ادا کیا اور لال مسجد کے دوستانہ رویے کی تعریف کی مگر پھر نجانے کیا ہوا کہ چند دن بعد رینجرز اور کمانڈوز لال مسجد کا محاصرہ کرنے لگے۔لال مسجد کے ارد گرد کی عمارتوں پر مورچے بننے لگے۔اس پر جب اضطراب اور تشویش کا اظہار کیا گیا تو ہمیں زبانی تسلی دی گئی کہ حکومت آپریشن کا ارادہ نہیں رکھتی اور دوسری طرف سے پورے زور و شور سے آپریشن کی تیاریاں جاری رہیں۔اس سارے عرصے میں ہمیں یہ تلخ تجربہ ہوا کہ حکومت کے کچھ لوگ جھوٹ بولنے اور دھوکے بازی کے عوض ہی شاید تنخواہ وصول کرتے ہیں۔حکومت ہر موقع پر ہمیں دھوکہ دیتی رہی…کبھی کوئی مذاکرات کے لئے آجا تا۔جب مذاکرات نتیجہ خیز ہونے لگتے تو ہمیں کہا جا تا ہم تو بے بس اور بے اختیار ہیں۔پھر کسی اور کے ساتھ مذاکرات کا دور چلتا۔چودھری شجاعت حسین صاحب نے جب مذاکرات کا آغاز کیا تو ہم یہ سمجھے کہ چودھری صاحب کی ایک حیثیت بھی ہے اور وہ قدر ے اچھے انسان بھی ہیں شاید وہ مساجد کی تعمیر نو اور ملک سے بے راہ روی کے خاتمے کی کوششوں میں کامیاب ہو جائیں گے ۔لیکن انہیں بھی بے بسی کا سامنا کرنا پڑا اور انہوں نے میڈیا کے سامنے اعلان کیا کہ لال مسجد والوں کی طرف سے تو مجھے مکمل تعاون اور مفاہمت پسند انہ رویہ ملا لیکن سی ڈی اے اور بعض نادیدہ قوتوں کی طرف سے مذاکرات کو سبوتاژ کیا گیا۔
تین جولائی کو جب آپریشن کیلئے آنے والی فورسز تیاری کر چکی تھیں مولانا صاحب اس وقت ان کے نام خطوط لکھوا رہے تھے کہ ہماری آپ کے خلاف کوئی جنگ اور دشمنی نہیں۔ہم اس سسٹم کی تبدیلی کی جدوجہد میں مصروف ہیں۔آپ غیروں کے کہنے پر مسجد، قر آن کریم، معصوم بچیوں اور نہتے طلبہ پر گولی ہر گز نہ چلائیں لیکن وہ کہاں باز آنے والے تھے۔انہوں نے پہلے آنسو گیس کے شیل فائر کیے اور پھر اندھا دھند گولیاں برسنے لگیں ۔جب فائرنگ کا آغاز ہوا اس وقت میرے پاس ایک چھوٹی سی بچی کھڑی تھی۔وہ مجھے کہہ رہی تھی کہ مجھے یقین نہیں آرہا کہ ہمارے فوجی بھائی ہم پر گولیاں بر سارہے ہیں، اسی دوران ایک سنسناتی ہوئی گولی آئی اور اسے شدید زخمی کر گئی لیکن اس کے باوجود وہ مسلسل موت و حیات کی کشمکش میں بھی یہی کہتی رہی کہ مجھے یقین نہیں آرہا کہ ہمارے فوجی بھائیوں نے ہم پر گولیاں چلائی ہیں۔جب ہمارے بچے شہید ہونے لگے تو مولانا محمد عبدالعزیز صاحب مسجد کے احاطے میں گئے وہاں ہر طرف طلبہ کی لاشیں بکھری پڑی تھیں۔مولانا نے ان کے سروں پر ہاتھ پھیر نا شروع کر دیا اور بہت دکھی ہوگئے۔مولانا چونکہ بہت ہی رقیق القلب انسان ہیں اور وہ کسی صورت میں خون خرابے کے حق میں نہیں تھے…اس لئے جب وہ واپس آئے تو انہوں نے مشورے سے یہ طے کیا کہ ہر صورت اس آپریشن کو رکوا یا جائے۔چونکہ پہلے سے کچھ سرکاری لوگ مذاکرات کی بات کر رہے تھے اب مولانا صاحب ان کی باتوں اور دھوکے میں آگئے اور خون خرابے کو روکنے کے لیے مذاکرات کی غرض سے باہر نکل گئے۔میں مولانا کے باہر جانے کے حق میں نہیں تھی ۔میں بار بار استخارہ کرتی تو مجھے مولانا کے باہر جانے پر شرح صدر نہ ہوتا…اس لیے میں ان کی گرفتاری اور شہادت دونوں کے لیے ذہنی طور پر تیار تھی۔مولانا کو کن لوگوں نے کس انداز سے گرفتار کرایا میں اس تفصیل میں نہیں جاتی بلکہ ہم اپنا معاملہ اپنے اللہ کے سپرد کرتے ہیں۔
قصہ مختصر یہ کہ مولانا صاحب کو انتہائی توہین آمیز انداز سے گرفتار کر لیا گیا۔پھر مولانا کی جگ ہنسائی کر کے ہمیں شدید کرب و اذیت سے دوچار کیا گیا۔مولانا صاحب کے بارے میں تاثر دیا گیا کہ اپنی جان بچانے کیلئے جارہے تھے حالانکہ انہوں نے اگر اپنی جان بچانی ہوتی تو وہ اپنی بوڑھی والدہ کو اندر چھوڑ کر کیسے نکلتے؟اپنے جواں سال بیٹے حسان کو ضرور ساتھ لے کر جاتے اور کچھ نہیں تو کم ازکم مولانا اپنی پیاری اسماء کو چھوڑ کر اپنی جان بچانے پر قطعی طور پر تیار نہ ہوتے۔مولانا کی گرفتاری کے بعد ہمیں یہ توقع تھی کہ شاید اب مولانا کی گرفتاری کی قربانی سے آپریشن رُک جائے گا لیکن ظالموں کی لہو کی پیاس اس کے باوجود نہیں بجھی اور انہوں نے اندھا دھند فائرنگ اور آتش و آہن کی بارش برسانے کا سلسلہ جاری رکھا…کیونکہ ان کا مقصد مولانا اور غازی صاحب کی گرفتاری ہی نہ تھا بلکہ وہ اپنے اقتدار کو طویل دینے کے لیے اپنے بچے بچیاں ذبح کرنے پر تل گئے تھے۔
وہ سات دن میری زندگی کے ناقابل فراموش دن ہیں جب میں نے اپنے بچوں اور بچیوں کو بھوک اور پیاس کی شدت کی وجہ سے تڑپتے دیکھا…جب میں اس منظر کو یاد کر تی ہوں تو لرزجاتی ہوں کہ میرے سامنے میری چھوٹی چھوٹی بچیاں خاک و خون میں تڑپ رہی تھیں۔ان کے زخموں سے خون بہہ رہا تھا۔وہ کھانے کو کچھ مانگتیں تو میرے پاس انہیں دینے کیلئے تسلی کے سوا اور کچھ نہ ہوتا۔جب وہ پانی کا سوال کرتیں تو میں بے بسی سے ہاتھ ملتی رہ جاتی۔سات دن کے وہ سینکڑوں منٹ اور ہزاروں لمحات میں سے ہر ہر لمحہ ہمارے لئے قیامت بن کر گزرا…آپ نے لوگوں کو گولیاں لگنے کی وجہ سے تو مرتے دیکھا ہوگا…بیماری کے نتیجے میں دنیا سے رخصت ہوتے ہوئے دیکھا ہوگا لیکن بھوک اور پیاس کی وجہ سے کسی کو نڈھال اور بے حال ہوتے ہوئے کبھی نہیں دیکھا ہوگا۔آپ نے نوجوانوں کے جسموں سے بہنے والے خون کو تو ضرور دیکھا ہوگا لیکن پھولوں اور کلیوں جیسے مسلے ہوئے بچے کبھی نہیں دیکھے ہوں گے۔وہ کیا بے بسی کا عالم تھا کہ ہمارا مدرسہ جہاں سینکڑوں لاوارث بچیوں کے لیے کھانا تیار ہو تا تھا اب وہاں ایک روٹی بھی میسر نہ تھی۔ سب سے پہلے کچن پر اندھا دھند بمباری کر کے اسے تباہ و برباد کر دیا گیا پھر کچن کو آگ لگادی۔پہلے دو دن تو راشن تھا لیکن پھرراشن ختم ہو گیا تو مدرسے کے احاطے میں بنی ہوئی کینٹین سے کچھ ٹافیاں اور بسکٹ مل گئے اور وہ بچیوں میں تقسیم کیے جانے لگے۔ٹافیوں سے زندہ انسان کا گزارہ بھلا کیسے ہو تا پھر نوبت پتے کھانے تک جا پہنچی…ایک ایسے وقت میں جب پوری پاکستانی قوم مزے مزے کے کھانے اور اللہ کی نعمتیں کھا رہی تھی میری مدرسے کی بچیاں پتے کھا کر گزارہ کر رہی تھیں…ہم خود بھوکے رہ کر جن بچیوں کے کھانے کا بندوبست کرتے تھے ان کو بے بسی سے پتے کھاتے دیکھ کر بہت دکھ ہو تا لیکن جب غزوہ’’ذاتُ الرقاع‘‘کا خیال آتا جب صحابہ کرام نے پائوں کے ساتھ چیتھڑے باندھے اور پتے کھائے تھے تو تسلی ہوجاتی کہ چلو ہم اور ہماری بچیاں بچے صحابہ کرام کی سنت زندہ کر رہے ہیں۔
ہماری کوشش تھی کہ بچیاں کسی طرح باہر چلی جائیں۔ہم تر غیب دے دے کر بچیوں کو باہر بھیجنے کی کوشش کرتے لیکن ان کا جواب ہو تا کہ آج ہم قر آن کریم کے جلتے اوراق، گولیوں سے چھلنی مسجد،اپنے مدرسے اور اپنے اساتذہ کرام کو تنہاء چھوڑ کر باہر جانے کے لیے قطعی طور پر تیار نہیں۔مجھے وہ منظر کبھی بھی نہیں بھولے گا جب ایک بچی کے والد اسے لینے کے لیے آئے۔وہ اپنی بچی کو اصرار اور تاکید سے حکم دے رہے تھے کہ وہ ان کے ساتھ چلی جائے لیکن وہ بچی بار بار کہہ رہی تھی کہ میں نے باہر نہیں جانا بلکہ یہیں شہید ہونا ہے۔جب اس کے والد نے بہت اصرار کیا تو اس بچی نے عجیب حرکت کی۔وہ اپنے بوڑھے باپ کے قدموں میں بیٹھ گئی۔سامنے ایک سفید ریش شہید کا جسد خاکی رکھا تھا۔وہ بچی اس شہید کی طرف اشارہ کر کے روتے ہوئے کہنے لگی:
ابو جی!آپ کو اس شہید کا واسطہ مجھے آپ ساتھ نہ لے جائیں یہیں چھوڑ جائیں‘‘
اس پر اس کے والد کو مجبوراً اس بچی کے سامنے ہتھیار ڈالنے پڑے۔میں بڑی مشکل سے بہت سی بچیوں کو ترغیب دے کر جامعہ سیدہ حفصہ سے باہر بھیجنے میں کامیاب ہوگئی۔کیونکہ راشن کی کمی کی وجہ سے زیادہ بچیوں کا اندر رہنا ہمارے لیے بوجھ اور پریشانی کا باعث بن رہا تھا،لیکن وہ بچیاں جب یہ کہتیں کہ:
’’آپی جان! جو لوگ ہم پر گولیاں برسا رہے ہیں، آپ ہمیں ان کے حوالے کررہی ہیں؟
آخر میں دو طرح کی بچیاں ہمارے ساتھ اندر رہ گئی تھیں…ایک تو وہ بچیاں تھیں جو اپنے والدین کو اللہ و رسول اور شہداء کے واسطے دے دے کر اندر رکنے کی اجازت لینے میں کامیاب ہوگئی تھیں اور دوسری بڑی تعداد ان بے سہارا اور لاوارث بچیوں کی تھی جن کا کوئی والی وارث نہ تھا۔دراصل ہوایوں تھا کہ زلزلے کے بعد مولانا عبدالعزیز صاحب نے القاسم فائونڈیشن کے رضا کاروں کی جو ٹیمیں بالا کوٹ اور کشمیر روانہ کی تھیں، ان میں اعلان کرا یا تھا کہ ’’جتنے لاوارث، یتیم اور بے سہارا بچیاں اور بچے ہوں اگر وہ ہمارے ہاں آنا چاہتے ہیں تو ان سب کو لے آنا اور پھر جب وہ لٹے پٹے بچے اور بچیاں ہمارے مدرسے میں آئیں تو مولانا نے مجھے حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کا وہ واقعہ سنا یا جب عید کے دن آپ صلی اللہ علیہ وسلم ایک یتیم بچے کو اپنے گھر لے آئے تھے اور فر ما یا تھا آئندہ کے لیے میں محمد صلی اللہ علیہ و سلم تمہارا باپ اور سیدہ عائشہ صدیقہ تمہاری ماں میں‘‘مولانا نے اس واقعے کا حوالہ دے کر فر ما یا’’آج ہمیں حضور صلی اللہ علیہ وسلم کی وہ سنت زندہ کرنے کا موقع ملا ہے اس لیے اب ہم ان بچوں کو اپنے بچوں سے زیادہ پیار اور محبت دینے کی کوشش کریں گے۔ہم نے ان لاوارث بچوں کے لیے قیام و طعام، کپڑوں بستروں اور کھلونوں کا بندوبست کیا۔ان بے شمار بچیوں کا سب کچھ جامعہ حفصہ ہی تھا،وہ زلزلے کے بعد در بدری ، یتیمی اور غریب الوطنی کے دکھ ایک دفعہ سہہ چکی تھیں…اب وہ دوبارہ ان کٹھن مراحل سے گزرنے کا حوصلہ نہیں رکھتی تھیں۔انہوں نے مجھے دو ٹوک انداز سے کہہ دیا تھا’’آپی جان! ہم نے باہر نہیں جانا۔ہم اگر باہر چلی بھی جائیں تو کہاں جائیں گی؟یوں تو میری سینکڑوں بچیوں نے میری گود میں آخری ہچکی لی اور کلمہ پڑھتے ہوئے اپنی جان جان آفرین کے سپرد کی لیکن ایک بچی کی سفر آخرت پر روانگی مجھے کبھی نہیں بھولے گی۔ہوایوں کہ کسی معلمہ کو کہیں سے کچھ آلو ملے انہوں نے لکڑیاں اکٹھی کر کے انہیں ابالنے کی کوشش کی پھر اس لڑکی نے مجھ سے پوچھا کہ آلو باہر کسی طالب علم بھائی کو دے آئوں‘‘
میں نے کہا بیٹا کلمہ پڑھتی ہوئی جائو اور اگر باہر مدرسے کے کسی دروازے کے قریب کوئی بھائی ہوں تو یہ آلو انہیں دے آنا۔اس بچی کے باہر نکلنے کے پندرہ بیس منٹ بعد باہر کسی طالبعلم کی آواز سنائی دی۔وہ اونچی اونچی آواز سے کہہ رہا تھا’’ام حسان کہاں ہیں؟…آپی جان کہاں ہیں؟‘‘ہم سب نے بر قعے تو پہن ہی رکھے تھے۔میں سامنے آئی تو عجیب منظر تھا۔خون میں لت پت میری وہ بچی جسے میں نے آلو دے کر کسی بھوکے بھائی کو دینے بھیجا تھا ۔ ایک طالبعلم نے اسے اس، انداز سے اٹھا رکھا تھا کہ وہ لہو لہان تھی۔اس نے وہ بچی میرے حوالے کی…میں نے اسے اپنی گود میں رکھا اور وہ بچی کلمہ پڑھتے پڑھتے ہمیشہ ہمیشہ کے لیے گہری نیند سو گئی۔اس بچی کو لانے والے طالبعلم نے بتا یا کہ میرے سامنے اس بچی کو ایک گولہ آکر لگا۔وہ شدید زخمی ہو کر نیچے گری تو میں نے اسے سیدھا کر کے لٹا یا اور کہا کلمہ پڑھو۔ اس نے جواباً کہا کلمہ تو میں پہلے سے پڑھ رہی ہوں کیونکہ مجھے آپی جان نے کہا تھا کہ کلمہ پڑھتی ہوئی جائو۔لیکن بھائی!آپ یہ بتائیں میں اتنی زیادہ زخمی ہوں اور میرا اتنا خون بہہ رہا ہے لیکن مجھے ذرا بھی درد نہیں ہو رہا اس کی کیا وجہ ہے؟پھر جب میں نے اس بچی کو اندر لانے کے لیے اٹھا یا تو وہ کہنے لگی’’بھائی!مجھے فوراً آپی جان کے پاس لے جائیں…‘‘اور میں دوڑ ا دوڑا اسے آپ کے پاس لے آیا۔
ایک اور ثانیہ نامی بچی کا واقعہ اس سے بھی زیادہ ایمان افروز ہے۔میں جب بچیوں کو تر غیت دیتے ہوئے یہ کہا کرتی تھی کہ ہم لوگ اس وقت آزمائش سے دوچار ہیں اور اللہ رب العزت جس سے محبت کرتے ہیں اسے آزمائش میں مبتلا کرتے ہیں۔میری یہ باتیں سن کر درجہ ابتدائیہ کی ایک ننھی سی طالبہ ثانیہ بار بار کہتی کہ مجھے اس بات پر یقین نہیں آرہا کہ ہم لوگ اس وقت اللہ کے اتنا قریب ہیں اور اللہ پاک ہم سے اتنا پیار کرتے ہیں۔اگر اللہ پاک ہم سے اتنا ہی پیار کرتے ہوتے تو ہم پر ظلم و ستم کے اتنے پہاڑ کیوں توڑے جاتے؟میں اسے سمجھانے کی کوشش کرتی لیکن اسے یقین ہی نہ آتا۔ پھرہوایوں کہ نماز مغرب کے وقت وہ جامعہ حفصہ کے صحن میں رکھی ہوئی بارش کے پانی سے بھری بالٹیوں میں سے پانی لینے کے لیے گئی…میں نے اسے کہا بھی کہ ثانیہ میری بیٹی!تیمم کر کے نماز پڑھ لو۔پانی پہلے ہی کم ہے لیکن وہ عجیب سر شاری کے عالم میں آگے بڑھی،بالٹی میں سے پانی لیا…وضو کیا…وہ وضو سے فارغ ہو کر جو نہی کھڑی ہوئی اور ننھی سی انگلی آسمان کی طرف اٹھا کر کلمہ شہادت پڑھنے لگی تو ایک گولی آئی اور اس کی شہ رگ سے پار ہوگئی۔ وہ بچی خون میں لت پت ہوگئی اور گر پڑی…میں دوڑ کر اسے اٹھانے گئی تو وہ میری طرف دیکھ کر زور سے ہنسی اور کہنے لگی’’آپی جان!آپ ٹھیک کہتی تھیں…واقعی اللہ پاک ہم سے بہت پیار کرتے ہیں‘‘اور پھر وہ ہمیشہ ہمیشہ کے لیے خاموش ہوگئی۔
لال مسجد آپریشن کو شروع ہوئے کئی دن گزر چکے تھے کہ ایک دن ہمیں کہیں سے تھوڑے سے کچے چاول ملے تو میں نے ٹوٹے ہوئے دروازوں اور کھڑکیوں کی لکڑیاں جمع کر کے بارش کے پانی میں وہ چاول ابالے اور بچوں کو دے کر کہا کہ ان چاولوں کا پانی خود پی لیں اور چاول زخمی طلبہ کو کھلادیں۔ایک لڑکا وہ چاول مسجد میں موجود زخمیوں کو دینے چلا…وہ جونہی باہر نکلا تو اسے ایک گولہ آکر لگا اس نے کلمہ پڑھا، میں اس کی طرف جانے لگی تو میرے بیٹے حسان نے مجھے منع کر دیااور اس نے خود اس کو کلمہ پڑھا کر آخرت کے سفر پر رخصت کر دیا۔
لال مسجد آپریشن کے دوران میرا معمول یہ تھا کہ میں اپنی جان کی پرواہ کیے بغیر مختلف کمروں میں جاتی…درسگاہوں میں جاتی…بچیوں کو تسلی دیتی…وہ سب ذکر اور مناجات میں مصروف ہوتیں۔ان میں سے اکثر اپنے اللہ کی بارگاہ میں زار و قطارو رہی ہوتیں…کچھ اپنی زخمی ساتھیوں کی تیمارداری میں لگی ہوتیں۔جب فورسز نے آگ کے گولے پھینکنے شروع کیے اور تخصص کی درسگاہ اورلائبریری میں آگ لگ گئی اور شعبہ حفظ کی درسگاہوں میں رکھے ہوئے قر آن کریم کے نسخے جلنے لگے تو چند طالبات بے خطر آگ میں کود پڑیں اور اللہ کی مقدس کتاب کو بچانے کی سعی کرنے لگیں اور پھر وہ کتاب مقدس کے ساتھ خود بھی اس آگ میں جل کر شہید ہوگئیں۔
میں نے ان سات دنوں اپنے اللہ کو بہت قریب سے دیکھا…ستر مائوں سے زیادہ مہربان پایا…وہ غالباً جمعہ کی شب تھی جب میں نے مولانا انعام اللہ صاحب کے نام پیغام بھیجا کہ اللہ پاک آپ کی دعائوں کو قبول کرتے ہیں آپ آسمانوں سے من و سلویٰ اتارنے والے رب سے دعا کریں کہ ان بچیوں کے لیے کھانے اور پانی کا کوئی بندوبست ہو اور زہریلی گیسوں سے نجات کی کوئی سبیل بنے۔اس شب نجانے مولانا انعام اللہ شہیدؒ نے کیسے اللہ کی بارگاہ میں دعاکی کہ اللہ نے بارش بھیج دی جس سے ہم نے سارے برتن پانی سے بھر لیے۔طوفان ایسا آیا کہ زہریلی گیسوں کا سارا اثر ختم ہوگیا۔اسی شب مسجد کے محراب میں رکھے شہد کے دو بڑے گیلن ملے۔میں نے شہد کا ویسا ذائقہ زندگی بھر کبھی محسوس نہیں کیا تھا۔یوں تو شہداء کے اجسام سے بھی خوشبو آرہی تھی لیکن اس شہد کی خوشبو اس سے بھی انوکھی تھی۔اس شہد کی خوشبو ایسی عجیب تھی کہ ہم جن برتنوں میں شہد کا شربت بنا یا کرتے تھے ان برتنوں سے بھی خوشبو آنے لگتی تھی۔ یہ معمہ آج تک میرے لیے لاینحل ہے کہ وہ شہد کہاں سے آیا تھا؟شاید ایسے ہی رزق کے بارے میں اللہ نے وعدہ کیا ہو کہ اللہ اپنے پرہیز گار بندوں کو ایسی جگہ سے رزق عطا کر تا ہے جہاں سے ان کے وہم و گمان میں بھی نہیں ہوتا۔
آپریشن کے دوران گولیوں سے زیادہ اذیت زہریلی گیس کی وجہ سے ہوتی تھی۔اس گیس کی وجہ سے دم گھٹنے لگتا تھا۔یوں محسوس ہو تا تھا جیسے کوئی آدمی کا گلا دبا رہا ہو۔بچیاں کہتی تھیں’’آپی جان!دعا کریں گولی سے شہید ہوجائیں لیکن اس گیس کی اذیت ہم سے جھیلی نہیں جاتی‘‘۔لیکن اللہ کی شان دیکھیے کہ جس شب گیس زیادہ مقدار میں استعمال کی جاتی اللہ تبارک و تعالیٰ اسی شب بارش بھیج دیتے۔تیز ہوائیں چلنے لگتیں اور اللہ اس گیس کو خود انہی کے اوپر پلٹ دیتے۔ہمارے پاس تو صرف چودہ کلاشنکوفیں تھیں اور گولیاں بھی نہ ہونے کے برابر تھیں۔غازی صاحب کی طرف سے سختی سے یہ حکم تھا کہ کوئی فضول فائر نہ کرے بلکہ اکا دکا گولی صرف اس لیے وقفے وقفے سے فائر کر دیا کروتا کہ انہیں یہ پتہ نہ چلنے پائے کہ ہم نہتے ہیں،یاہمارے پاس اسلحہ کم ہے۔لیکن اللہ کی عجیب شان تھی جب چاروں اطراف سے مسجد و مدرسے پر بھاری ہتھیاروں سے فائرنگ کی جاتی تو فوجیوں کی اپنی گولیاں کراس ہو کر دوسری سمت کے فوجیوں کو لگتیں اور وہ یہ سمجھتے کہ شاید اندر سے فائرنگ اور مزاحمت ہو رہی ہے۔
اس سانحے کے دوران میرے دل پر کتنے گہرے زخم لگے اس کا اندازہ کون کر سکتا ہے؟آپ بچوں اور بچیوں کا معاملہ رہنے دیجئے میں آپ کو کن الفاظ میں بتائوں کہ جب مسجد کی مقدس دیواریں اور الماریوں میں رکھے قر آن مجید گولیوں سے چھلنی ہو رہے تھے اس وقت ہمارے جگر کس طرح ٹکڑے ٹکڑے ہو رہے تھے،اور جب ہمارے سامنے جامعہ سیدہ حفصہ میں مقدس کتابوں اور قر آن کریم کے اوراق جل رہے تھے تو ہم اپنی چادروں اور برقعوں سے اپنی جان کی پرواہ کیے بغیر اس آگ کو بجھانے کی کوشش کر رہیں تھیں۔وہاں پر ہر کمرے اور ہر درسگاہ میں قر آ ن کریم کے نسخے تھے۔مقدس کتابیں تھیں۔احادیث مبارکہ کے اوراق تھے اور پاکیزہ فطرت بیٹیاں تھیں،ہم کیا کیا کرتے؟بچیوں اور بچوں کو تسلی دیتے،ان کا بہتا ہوا خون روکتے، جلتے ہوئے قر آن کریم کے اوراق کو لگی آگ بجھاتے؟
اس کٹھن مرحلے میں ہمارے لئے سب سے زیادہ اذیت کی بات یہ تھی کہ بہت سے علماء ہمارے ساتھ فون پر بات کرنے کو تیار ہی نہ تھے۔مجھ سے غازی شہیدؒ کی وہ حالت کبھی بھی بھلائی نہ جائے گی جب وہ علماء میں سے ایک ایک کا فون نمبر ملانے کی کوشش کر رہے تھے اور سب کے موبائل آف مل رہے تھے یا پھر وہ ہم مجبوروں اور مظلوموں کی بات سننے کو تیار ہی نہ تھے۔بے چارے غازی صاحب تقریباً آدھا گھنٹہ نمبر ملانے کی کوشش کرتے رہے۔جب کسی کا نمبر بند ملتا یا وہ غازی صاحب کا نام سن کر فون بند کر دیتا توغازی صاحب کو ان حضرات کی اس بے مہری پر سخت صدمہ ہوتا۔غازی صاحب کے حوصلے، ان کی ہمت و بہادری اور ان کی فراست نے مجھے حیران کر دیا…لیکن ان کا جذبہ اور اخلاص سب سے عجیب اور حیران کر دینے والا تھا۔میں کبھی کبھی ان سے کہتی کہ اپنے بچوں کے بارے میں کوئی وصیت تو کر دیں…تو وہ جواباً عجیب لہجے میں کہا کرتے تھے’’میں اپنے جس رب کی خاطر جان دے رہا ہوں وہ میری اہلیہ اور بچوں کی حفاظت بھی کرے گا اور ان کو پالے گا بھی‘‘۔
امی جی کا جذبہ ایمانی بھی عجیب تھا۔وہ کہا کرتی تھیں’’دیکھا!میں نے تم لوگوں سے کہا تھا کہ اللہ مجھے شہادت کی سعادت عطا فر مائیں گے اب مجھے اسی بستر پر شہادت ملے گی۔وہ کہا کرتی تھیں اس گندی دنیا میں رکھا ہی کیا ہے۔جنت میں چلے جائیں گے جہاں کوئی ظالم و جابر نہیں ہوگا‘‘جو بھی امی جی سے ملتا تھا اور ان کی باتیں سنتا تھا وہ اپنے ایمان میں ترقی محسوس کرتا تھا…اور میرا اکلوتا بیٹا حسان عجیب بات کہا کرتا تھا کہ ہم یہ روزہ داد ابو کے ساتھ افطار کریں گے‘‘اور آخر اللہ نے یہ سعادت اس کا مقدر کردی کہ وہ اتنی چھوٹی عمر اپنے شہید داد ابو کے پاس پہنچ گیا۔
ویسے تو مولانا کی گرفتاری کے بعد روزانہ ہی غازی صاحب مجھے کہتے رہے کہ’’بھا بھی!آپ باہر چلی جائیں لیکن8جولائی کو غازی شہید نے ہمیں ضد،اصرار اور منتیں کر کے باہر نکلنے پر مجبور کردیا۔حسان اور غازی صاحب مجھے بار بار کہتے کہ ہم آپ کو بحیثیت امیر حکم دیتے ہیں کہ آپ باہر چلی جائیں کیونکہ اگر آپ زندہ حالت میں ان ظالموں کے ہاتھ لگ گئیں تو یہ آپ کو ہمیشہ ہمیشہ کے لیے غائب کر دیں گے۔ بعد کے حالات نے ان کی بات کو سچ ثابت کر دکھا یا کیونکہ جن لوگوں نے امی جی کی لاش غائب کردی ان کے بارے میں آپ اندازہ لگا سکتے ہیں کہ وہ کہاں تک جاسکتے ہیں۔جب میں اپنی دیگر زخمی بچیوں کو لئے وہاں سے نکلنے لگی تو اپنا دل، جگر، کلیجہ اور اپنی بچیوں کی لاشیں، اور اپنا سب کچھ وہیں چھوڑ آئی…کوئی ماں ہی میری اس کیفیت کا اندازہ لگا سکتی ہے جب میں اپنے اکلوتے اور لاڈلے جواں سال بیٹے حسان شہید کی پیشانی پر اپنی زندگی کا آخری بوسہ دے رہی تھی اس وقت میرے دل پر کیا گزری ہوگی؟ وہ کلاشنکوف ہاتھ میں لئے تنا کھڑا تھا اور اسلام کے لئے آخری سانس تک لڑنے کا عہدکر چکا تھا۔ میں نے حسان سے کہا’’بیٹا!میں نے تمہیں آج کے دن کیلئے ہی پالا تھاَہمت نہ ہارناِ استقامت کا مظاہرہ کرنا،مسجد کے تقدس ، قرآن کریم کی حرمت اور اپنی مظلوم بہنوں اور بھائیوں کے تحفظ کے لئے اگر میرے اللہ نے تمہاری قربانی قبول کرلی تو یہ ہمارے لئے سعادت اور سربلندی کا ذریعہ ہوگی۔بیٹا!سینے پر گولی کھانا۔دیکھنا!ہمیں اپنے اللہ کے سامنے شرمندہ نہ کرنا۔اس بات کا خیال کرنا کہ ہمیں اپنے آقا صلی اللہ علیہ و سلم کے سامنے شرمندگی نہ اٹھا نا پڑے‘‘۔
اس وقت بھی میری بہت عجیب حالت ہے۔3جولائی سے10جولائی تک لال مسجد اور جامعہ حفصہ میں، میں نے جو دلخراش مناظر دیکھے وہ مجھے نہ چین سے جینے دیتے ہیں،نہ آرام سے سونے دیتے ہیں۔میں جب بھی سامنے کھانا رکھ کر بیٹھتی ہوں تو مجھے اپنی بھوک اور پیاس سے تڑپتی ہوئی بچیاں یاد آنے لگتی ہیں۔ماہ رمضان میں جب افطاری کے لیے دستر خوان لگتا ہے اور اس پر اللہ کی رنگارنگ نعمتیں سجی ہوتی ہیں تو مجھے امرود کے وہ پتے یاد آجاتے ہیں جنہیں کھا کر ہم لوگ گزارہ کرتے رہے۔ہماری مسجد و مدرسے پر سات دن تک آتش و آہن کی بارش اس کثرت اور شدت سے کی گئی کہ مجھے اب بھی یوں لگتا ہے جیسے میری سماعت جواب دے گئی ہو۔مجھے بہت اونچا سنائی دیتا ہے۔جب زلزلے سے متاثر بچیاں ہمارے پاس آئی تھیں تو ان کی عجیب حالت تھی، وہ آرام سے بیٹھے بیٹھے’’زلزلہ زلزلہ‘‘کہہ کر چیخنے اور بھاگنے لگ جاتی تھیں مجھے آج ان کی اس کیفیت کا اندازہ ہو رہا ہے کیونکہ کبھی کبھار بیٹھے بیٹھے مجھے یوں لگتا ہے جیسے بھاری ہتھیاروں سے فائرنگ اور بمباری شروع ہو گئی ہو۔
میں اس بات پر اللہ کا شکر ادا کرتی ہوں کہ شہیدوں کی اس بارات میں میرا اکلوتا اور لاڈلا بیٹا حسان بھی شامل تھا…حوصلہ افزاء بات یہ ہے کہ ابھی تک جس جس شہید کی ماں اور دیگر اہل خانہ سے میری ملاقات ہوئی میں نے اللہ کے فضل و کرم سے سب کو صبرو شا کر پایا۔ہم سب ان قابلِ فخر شہداء کو سلام عقیدت اور خراج تحسین پیش کرتے ہیں جنہوں نے اہل حق کی لاج رکھ لی۔ ہماری اس قربانی سے اب پاکستان میں شریعت نافذ کرنے کی ایک مظبوط تحریک چل پڑی ہے اور ہمیں امید ہے کہ اب اس ملک میں اللہ کا نظام نافذ ہو کر ہی رہے گا۔


__________________
(¯`v´¯)
`*.¸.*`

¸.*´¸.*´¨) ¸.*´¨)
(¸.*´ (¸.
Bzu Forum

Don't cry because it's over, smile because it happened

 
.BZU.'s Avatar
.BZU.


Join Date: Sep 2007
Location: near Govt College of Science Multan Pakistan
Posts: 9,693
Contact Number: Removed
Program / Discipline: BSIT
Class Roll Number: 07-15
Views: 2364
Reply With Quote
Reply

Tags
guzri, hasan, hum, kahani, kia, laal, masjid, saniha, ume


Currently Active Users Viewing This Thread: 1 (0 members and 1 guests)
 
Thread Tools Search this Thread
Search this Thread:

Advanced Search
Display Modes Rate This Thread
Rate This Thread:

Posting Rules
You may not post new threads
You may not post replies
You may not post attachments
You may not edit your posts

BB code is On
Smilies are On
[IMG] code is On
HTML code is Off
Trackbacks are On
Pingbacks are On
Refbacks are On


Similar Threads
Thread Thread Starter Forum Replies Last Post
Yey bhi acha hua yey eid bhi tanha guzri Salman Mushtaq Aik Shair Aik Ahsaas 0 05-11-2011 10:50 PM
Guzri...,, usman_latif_ch Aik Shair Aik Ahsaas 6 10-10-2011 06:56 AM
Zulmat Ko Zia - Laal usman_latif_ch Youtube Videos/Clips etc 0 13-05-2011 05:19 PM
♫ LAAL - Doob Gaya Hai. Song for flood victims. thecool Paki Video Songs 0 18-09-2010 01:23 PM
Amusing Promo songs By (laal band) usman_latif_ch Pakistani Audio Songs 2 07-04-2009 07:48 PM

Best view in Firefox
Almuslimeen.info | BZU Multan | Dedicated server hosting
Note: All trademarks and copyrights held by respective owners. We will take action against any copyright violation if it is proved to us.

All times are GMT +5. The time now is 05:12 PM.
Powered by vBulletin® Version 3.8.2
Copyright ©2000 - 2024, Jelsoft Enterprises Ltd.