BZU PAGES: Find Presentations, Reports, Student's Assignments and Daily Discussion; Bahauddin Zakariya University Multan

Go Back   HOME > Welcome to all the Students > Islam
Islam Full of Islamic Stuff



Reply
 
Thread Tools Rate Thread Display Modes
Old 17-01-2011, 01:55 AM   #1
.BZU.
Sunny (Munafay Ka Sauda)مُنافع کا سودا

بسم اللہ الرحمٰن الرحيم
مُنافع کا سودا

سرکارِ دو عالم حضرت محمد صلي اللہ عليہ وسلم اپنے صحابہ کرام رضي اللہ تعالٰي عنہما کے درميان تشريف فرما تھے کہ ايک يتيم جوان شکايت ليئے حاضر خدمت ہوا۔ کہنے لگا يا رسول اللہ؛ ميں اپني کھجوروں کے باغ کے ارد گرد ديوار تعمير کرا رہا تھا کہ ميرے ہمسائے کي کھجور کا ايک درخت ديوار کے درميان ميں آ گيا۔ ميں نے اپنے ہمسائے سے درخواست کي کہ وہ اپني کھجور کا درخت ميرے ليئے چھوڑ دے تاکہ ميں اپني ديوار سيدھي بنوا سکوں، اُس نے دينے سے انکار کيا تو ميں نے اُس کھجور کے درخت کو خريدنے کي پيشکس کر ڈالي، ميرے ہمسائے نے مجھے کھجور کا درخت بيچنے سے بھي انکار کر ديا ہے۔ سرکار صلي اللہ عليہ وسلم نے اُس نوجوان کے ہمسائے کو بلا بھيجا۔ ہمسايہ حاضر ہوا تو آپ صلي اللہ عليہ وسلم نے اُسے نوجوان کي شکايت سُنائي جسے اُس نے تسليم کيا کہ واقعتا ايسا ہي ہوا ہے۔ آپ صلي اللہ عليہ وسلم نے اُسے فرمايا کہ تم اپني کھجور کا درخت اِس نوجوان کيلئے چھوڑ دو يا اُس درخت کو نوجوان کے ہاتھوں فروخت کر دو اور قيمت لے لو۔ اُس آدمي نے دونوں حالتوں ميں انکار کيا۔ آپ صلي اللہ عليہ وسلم نے اپني بات کو ايک بار پھر دہرايا؛ کھجور کا درخت اِس نوجوان کو فروخت کر کے پيسے بھي وصول کر لو اور تمہيں جنت ميں بھي ايک عظيم الشان کھجور کا درخت ملے گا جِس کے سائے کي طوالت ميں سوار سو سال تک چلتا رہے گا۔ دُنيا کےايک درخت کے بدلے ميں جنت ميں ايک درخت کي پيشکش ايسي عظيم تھي جسکو سُن کر مجلس ميں موجود سارے صحابہ کرام رضي اللہ عنہما دنگ رہ گئے۔ سب يہي سوچ رہے تھے کہ ايسا شخص جو جنت ميں ايسے عظيم الشان درخت کا مالک ہو کيسے جنت سے محروم ہو کر دوزخ ميں جائے گا۔ مگر وائے قسمت کہ دنياوي مال و متاع کي لالچ اور طمع آڑے آ گئي اور اُس شخص نے اپنا کھجور کا درخت بيچنے سے انکار کرديا۔ مجلس ميں موجود ايک صحابي (ابا الدحداح) آگے بڑھے اور حضور اکرم صلي اللہ عليہ وسلم سے عرض کي، يا رسول اللہ صلي اللہ عليہ وسلم، اگر ميں کسي طرح وہ درخت خريد کر اِس نوجوان کو ديدوں تو کيا مجھے جنت کا وہ درخت ملے گا؟ آپ صلي اللہ عليہ وسلم نے جواب ديا ہاں تمہيں وہ درخت ملے گا۔ ابا الدحداح اُس آدمي کي طرف پلٹے اور اُس سے پوچھا ميرے کھجوروں کے باغ کو جانتے ہو؟ اُس آدمي نے فورا جواب ديا؛ جي کيوں نہيں، مدينے کا کونسا ايسا شخص ہے جو اباالدحداح کے چھ سو کھجوروں کے باغ کو نہ جانتا ہو، ايسا باغ جس کے اندر ہي ايک محل تعمير کيا گيا ہے، باغ ميں ميٹھے پاني کا ايک کنواں اور باغ کے ارد گرد تعمير خوبصورت اور نماياں ديوار دور سے ہي نظر آتي ہے۔ مدينہ کے سارے تاجر تيرے باغ کي اعلٰي اقسام کي کھجوروں کو کھانے اور خريدنے کے انتطار ميں رہتے ہيں۔ ابالداحداح نے اُس شخص کي بات کو مکمل ہونے پر کہا، تو پھر کيا تم اپنے اُس کھجور کے ايک درخت کو ميرے سارے باغ، محل، کنويں اور اُس خوبصورت ديوار کے بدلے ميں فروخت کرتے ہو؟ اُس شخص نے غير يقيني سے سرکارِ دوعالم کي طرف ديکھا کہ کيا عقل مانتي ہے کہ ايک کھجور کے بدلے ميں اُسے ابالداحداح کے چھ سو کھجوروں کے باغ کا قبضہ بھي مِل پائے گا کہ نہيں؟ معاملہ تو ہر لحاظ سے فائدہ مند نظر آ رہا تھا۔ حضور پاک صلي اللہ عليہ وسلم اور مجلس ميں موجود صحابہ کرام رضي اللہ عنہما نے گواہي دي اور معاملہ طے پا گيا۔ ابالداحداح نے خوشي سے حضور اکرم صلي اللہ عليہ وسلم کو ديکھا اور سوال کيا؛ يا رسول اللہ صلي اللہ عليہ وسلم ، جنت ميں ميرا ايک کھجور کا درخت پکا ہو گيا ناں؟ آپ صلي اللہ عليہ وسلم نے فرمايا نہيں۔ ابالدحداح سرکار صلي اللہ عليہ وسلم کے جواب سے حيرت زدہ سے ہوئے۔ آپ صلي اللہ عليہ وسلم نے اپني بات کو مکمل کرتے ہوئے جو کچھ فرمايا اُس کا مفہوم يوں بنتا ہے کہ؛ اللہ رب العزت نے تو جنت ميں ايک درخت محض ايک درخت کے بدلے ميں دينا تھا۔ تم نے تو اپنا پورا باغ ہي ديديا۔ اللہ رب العزت جود و کرم ميں بے مثال ہيں اُنہوں نے تجھے جنت ميں کھجوروں کے اتنے باغات عطاء کيئے ہيں کثرت کي بنا پر جنکے درختوں کي گنتي بھي نہيں کي جا سکتي۔ ابالدحداح، ميں تجھے پھل سے لدے ہوئے اُن درختوں کي کسقدر تعريف بيان کروں؟ آپ صلي اللہ عليہ وسلم اپني اِس بات کو اسقدر دہراتے رہے کہ محفل ميں موجود ہر شخص يہ حسرت کرنے لگا اے کاش وہ ابالداحداح ہوتا۔ ابالداحداح وہاں سے اُٹھ کر جب اپنے گھر کو لوٹے تو خوشي کو چُھپا نہ پا رہے تھے۔ گھر کے باہر سے ہي اپني بيوي کو آواز دي کہ ميں نے چار ديواري سميت يہ باغ، محل اور کنواں بيچ ديا ہے۔ بيوي اپنے خاوند کي کاروباري خوبيوں اور صلاحيتوں کو اچھي طرح جانتي تھي، اُس نے اپنے خاوند سے پوچھا؛ ابالداحداح کتنے ميں بيچا ہے يہ سب کُچھ؟ ابالداحداح نے اپني بيوي سے کہا کہ ميں نے يہاں کا ايک درخت جنت ميں لگے ايسے ايک درخت کے بدلے ميں بيچا ہے جِس کے سايہ ميں سوار سو سال تک چلتا رہے۔ ابالداحداح کي بيوي نے خوشي سے چلاتے ہوئے کہا؛ ابالداحداح، تو نے منافع کا سودا کيا ہے۔ ابالداحداح، تو نے منافع کا سودا کيا ہے۔ **** دنيا کي قُرباني کے بدلے ميں آخرت کي بھلائي يا دُنيا ميں اُٹھائي گئي تھوڑي سي مشقت کے بدلے کي آخرت کي راحت۔۔۔۔ کون تيار ہے ايسے سودے کيلئے؟؟؟ زندگي کي سمت متعين کرنے کيلئے آپ سوچيئے گا ضرور۔۔
  Reply With Quote
Reply

Tags
munafay, سودا, saudaمُنافع

Thread Tools Search this Thread
Search this Thread:

Advanced Search
Display Modes Rate This Thread
Rate This Thread:

 
 

Best view in Firefox
Almuslimeen.info | BZU Multan | Dedicated server hosting
Note: All trademarks and copyrights held by respective owners. We will take action against any copyright violation if it is proved to us.

All times are GMT +5. The time now is 07:17 PM.


Powered by vBulletin® Version 3.8.2
Copyright ©2000 - 2024, Jelsoft Enterprises Ltd.