13-08-2008, 07:25 PM | #1 |
محبت کے دریچے انسان ماڈرن ہوتے ہوتے کہیں انسانیت سے محروم نہ ہو جائے۔ دل پرانی یادوں سے آباد رہیں اور پیشانی سجدوں سے آباد رہیں۔ پرانا کلمہ پھر سے پڑھا جائے۔ پرانی مساجد کی عزت کی جائے۔ پرانے خطبوں میں نئے نام نہ ملائے جائیں۔ پرانی عقیدتیں ہی دینی عقیدتیں ہیں۔ ہمارا رشتوں سے آزاد نیا پن کہیں ہمیں رشتوں سے آزاد نہ کر دے۔ محبت و احترام سے ازاد ہو کر ہم گستاخ نہ بن جائیں۔ ہماری خود غرضی اور گستاخی ہمارے لیے عذاب نہ لکھ دے۔ ایسا عذاب کہ ہمارے لیے کوئی دل بے قرار نہ ہو، کوئی انکھ انتظار نہ کرے، اور سب سے زیادہ خطرناک عذاب کہ ہمارے لیے کوئی دعا گو ہی نہ رہ جائے۔ ہم نے جن لوگوں کو اپنی موت کا غم دے کر جانا ہے، کیوں نہ ان کو زندگی ہی میں کوئی خوشی دے جائیں۔ موت یہ نہیں کہ سانس ختم ہو جائے، اصل موت تو یہ ہے کہ ہمیں یاد کرنے والا کوئی نہ ہو۔ ہمارے لیے نیک خواہشات رکھنے والے ہماری توجہ کے محتاج ہیں۔ ان کی قدر کرنا چائیے۔ اگر ہمارا کوئی نہ ہو تو پھر ہم ہیں ہی کیا؟ ہمارا ہونا بھی کیا ہونا ہے! (حرف حرف حقیقت سے اقتباس) زندگی صرف خوفزدہ رہنے کے لیے نہیں ملی۔ خوف، ترقی سے محروم کر دیتا ہے اور خوفزدہ انسان اپنے اندر ہی ریت کی دیوار کی طرح گر جاتا ہے اور یوں زندگی ہی میں مر جاتا ہے۔ عظیم انسان موت کی وادی سے باوقار ہو کر گزرتے ہیں۔ اس کی رحمت پر نگاہ رکھی جائے، تو خوف ختم ہو جاتا ہے۔ خوف آخر مفروضہ ہی تو ہے، وہ المیہ جو ابھی رونما نہیں ہوا اور رونما ہو سکتا ہے، اندیشہ کہلاتا ہے۔انسان اگر مستقبل کو آئینہ تخیل میں اتارنے کی بجائے حال کے فرض کا قرض ادا کرے، تو خوف سے بچ جاتا ہے۔ مستقبل صرف خواب ہی تو ہے۔ خوفناک ہو یا حسین، محتاج تعبیر ہے اور ماضی کتنا ہی بھیانک ہو ایک تصویر ہی تو ہے۔ بے جان تصویر۔ حال اور صرف حال حقیقت ہے۔ حال زندگی ہے، عمل ہے۔ خوف سے آزاد، جو ہوا سو ہو چکا، جو ہونا ہے ،سو ہو جائے گا۔ پیدا کرنے والے کی منشا کے خلاف جو زندگی ہو گی، خوف زدہ ہو گی۔ خالق سے دوری جس شکل میں بھی ہو، ڈر پیدا کرے گا اور خالق کا قرب جس حالت میں بھی ہو، خوف سے نجات دے گا۔ فیصلہ انسان نے خود کرنا ہے۔ جس زندگی میں شوق ہو گا، اُس میں خوف نہیں ہو گا۔ خوف دوزخ ہے، شوق جنت۔ مفادات کو مقدم سمجھنے والے شوق کو نہیں سمجھ سکتے۔ شوق کا تعلق دل سے ہے، مفادات کا واسطہ دماغ سے ہے۔ دل قربانیاں پیش کرتا ہے، عقل حاصل کی تلاش میں سرگرداں ہے۔ قربانیاں پیش کرنے والے کو کوئی ڈر نہیں ہوتا اور حاصل کی تمنا کرنے والا محرومی کے اندیشوں سے نہیں نکل سکتا۔ دولت کی تمنا کے لیے خوف کا عذاب لکھ دیا گیا ہے۔ دولت کی محبت غریبی کا ڈر پیدا کرتی ہے۔ قطرہ قطرہ قلزم، جناب واصف علی واصف | |
01-10-2008, 12:05 AM | #2 |
Re: محبت کے دریچے
Muslims should think what they are doing ........................?!!!!!!!!
| |
Tags |
محبت, کے |
Thread Tools | Search this Thread |
Display Modes | Rate This Thread |
|