BZU PAGES: Find Presentations, Reports, Student's Assignments and Daily Discussion; Bahauddin Zakariya University Multan

Go Back   HOME > Welcome to all the Students > Islam
Islam Full of Islamic Stuff



Reply
 
Thread Tools Rating: Thread Rating: 2 votes, 5.00 average. Display Modes
Old 17-07-2011, 08:37 PM   #1
.BZU.
Islamic 15 Shaban ki raat main qiyam aur Roza, نصف شعبان كى رات كا قيام كرنا اور پندرہ شعبان كا روزہ ركھنا

كيا نصف شعبان كا روزہ ركھ لے چاہے حديث ضعيف ہى كيوں نہ ہو ؟
كيا حديث كے ضعف كا علم ہونے كے باوجود اس پر عمل كرنا جائز ہے يعنى فضائل اعمال ميں ضعيف حديث پر عمل كرنا صحيح ہے ؟
نصف شعبان كى رات كا قيام كرنا اور پندرہ شعبان كا روزہ ركھنا، يہ علم ميں رہے كہ نفلى روزہ اللہ تعالى كى عبادت ہے، اور اسى طرح رات كا قيام بھى ؟


الحمد للہ:
اول:
نصف شعبان كے وقت نماز روزہ كے فضائل كے متعلق جو احاديث بھى وارد ہيں وہ ضعيف قسم ميں سے نہيں، بلكہ وہ احاديث تو باطل اور موضوع و من گھڑت ہيں، اور اس پر عمل كرنا حلال نہيں نہ تو فضائل اعمال ميں اور نہ ہى كسى دوسرے ميں.
ان روايات كے باطل ہونے كا حكم اكثر اہل علم نے لگايا ہے، جن ميں ابن جوزى رحمہ اللہ تعالى نے اپنى كتاب " الموضوعات " ( 2 / 440 - 445 ) اور ابن قيم الجوزيۃ رحمہ اللہ نے اپنى كتاب " المنار المنيف حديث نمبر ( 174 - 177 ) اور ابو شامۃ الشافعى نے " الباعث على انكار البدع والحوادث ( 124 - 137 ) اور العراقى نے " تخريج احياء علوم الدين حديث نمبر ( 582 ) اور شيخ الاسلام رحمہ اللہ تعالى نے ان احاديث كے باطل ہونے كا " مجموع الفتاوى ( 28 / 138 ) ميں نقل كيا ہے.
اور شيخ ابن باز رحمہ اللہ تعالى نصف شعبان كا جشن منانے كے حكم ميں كہتے ہيں:
" اكثر اہل علم كے ہاں نصف شعبان كو نماز وغيرہ ادا كر جشن منانا اور اس دن كے روزہ كى تخصيص كرنا منكر قسم كى بدعت ہے، اور شريعت مطہرہ ميں اس كى كوئى دليل نہيں ملتى"
اور ايك مقام پر رحمہ اللہ تعالى كہتے ہيں:
" نصف شعبان كى رات كے متعلق كوئى بھى صحيح حديث وارد نہيں ہے بلكہ اس كے متعلق سب احاديث موضوع اور ضعيف ہيں جن كى كوئى اصل نہيں، اور اس رات كو كوئى خصوصيت حاصل نہيں، نہ تو اس ميں تلاوت قرآن كى فضيلت اور خصوصيت ہے، اور نہ ہى نماز اور جماعت كى.
اور بعض علماء كرام نے اس كے متعلق جو خصوصيت بيان كى ہے وہ ضعيف قول ہے، لہذا ہمارے ليے جائز نہيں كہ ہم كسى چيز كے ساتھ اسے خاص كريں، صحيح يہى ہے"
اللہ تعالى ہى توفيق دينےوالا ہے.
دوم:
اور اگر ہم تسليم بھى كر ليں كہ يہ موضوع نہيں: تو اہل علم كا صحيح قول يہى ہے كہ مطلقا ضعيف حديث كو نہيں ليا جا سكتا، چاہے وہ فضائل اعمال يا ترغيب و ترھيب ميں ہى كيوں نہ ہو.
اور صحيح حديث كو لينے اور اس پر عمل كرنے ميں مسلمان شخص كے ليے ضعيف حديث سے كفايت ہے، اور اس رات كى كوئى تخصيص ثابت نہيں اور نہ ہى اس دن كى كوئى فضيلت شريعت مطہرہ ميں ملتى ہے، نہ تو نبى كريم صلى اللہ عليہ وسلم سے اور نہ ہى ان كے صحابہ كرام سے.
علامہ احمد شاكر رحمہ اللہ تعالى كہتے ہيں:
احكام اور فضائل اعمال وغيرہ ميں ضعيف حديث نہ لينے ميں كوئى فرق نہيں، بلكہ رسول كريم صلى اللہ عليہ وسلم سے ثابت شدہ صحيح يا حسن حديث كے علاوہ كسى چيز ميں كسى كے ليے حجت نہيں.



Is it permissible, even after finding out that a hadeeth is da’eef (weak), to follow it, by way of doing righteous deeds? The hadeeth says: “When it is halfway through Sha’baan, spend that night in prayer and fast on that day.” The fast is observed as a voluntary act of devotion to Allaah, as is spending that night in prayer (qiyaam al-layl).


Praise be to Allaah.
Firstly:

What is narrated concerning the virtue of praying, fasting and worshipping on the fifteenth of Sha’baan (al-nusf min Sha’baan) does not come under the heading of da’eef (weak), rather it comes under the heading of mawdoo’ (fabricated) and baatil (false). So it is not permissible to follow it or to act upon it, whether that is in doing righteous deeds or otherwise.

A number of scholars ruled that the reports concerning that were false, such as Ibn al-Jawzi in his book al-Mawdoo’aat, 2/440-445; Ibn Qayyim al-Jawziyyah in al-Manaar al-Muneef, no. 174- 177; Abu Shaamah al-Shaafa’i in al-Baa’ith ‘ala Inkaar al-Bida’ wa’l-Hawaadith, 124-137; al-‘Iraaqi in Takhreej Ihyaa’ ‘Uloom il-Deen, no. 582. Shaykh al-Islam [Ibn Taymiyah] narrated that there was consensus on the fact that they are false, in Majmoo’ al-Fataawa, 28/138.

Shaykh Ibn Baaz (may Allaah have mercy on him) said in Hukm al-Ihtifaal bi Laylat al-Nusf min Sha’baan (Ruling on celebrating the fifteenth of Sha’baan):

Celebrating the night of the fifteenth of Sha’baan (Laylat al-Nusf min Sha’baan) by praying etc, or singling out this day for fasting, is a reprehensible bid’ah (innovation) according to the majority of scholars, and there is no basis for this in sharee’ah.

And he (may Allaah have mercy on him) said:

There is no saheeh hadeeth concerning the night of the fifteenth of Sha’baan (Laylat al-Nusf min Sha’baan). All the ahaadeeth that have been narrated concerning that are mawdoo’ (fabricated) and da’eef (weak), and have no basis. There is nothing special about this night, and no recitation of Qur’aan or prayer, whether alone or in congregation, is specified for this night. What some of the scholars have said about it being special is a weak opinion. It is not permissible to single it out for any special actions. This is the correct view. And Allaah is the Source of strength.




Secondly:

Even if we assume that the hadeeth is da’eef (weak) and not mawdoo’ (fabricated), the correct scholarly view is that weak ahaadeeth should not be followed at all, even if they speak of righteous deeds or of targheeb and tarheeb (promises and warnings). The saheeh reports are sufficient and the Muslim has no need to follow the da’eef reports. Nothing is known in Islam to suggest that this night or day is special, either from the Prophet (peace and blessings of Allaah be upon him) or from his companions.

The scholar Ahmad Shaakir said: There is no difference between rulings or righteous deeds; we do not take any of them from da’eef reports, rather no one hast he right to use any report as evidence unless it is proven to be soundly narrated from the Messenger of Allaah (peace and blessings of Allaah be upon him) in a saheeh or hasan hadeeth.


عبادت كے ليے نصف شعبان كى رات مخصوص كرنا
ميں نے ايك كتاب ميں پڑھا كہ نصف شعبان كا روزہ ركھنا بدعت ہے، اور ايك دوسرى كتاب ميں لكھا تھا كہ نصف شعبان كا روزہ ركھنا مستحب ہے... برائے مہربانى يہ بتائيں كہ اس كے متعلق قطعى حكم كيا ہے ؟

الحمد للہ:
نصف شعبان كى فضيلت ميں كوئى بھى صحيح اور مرفوع حديث ثابت نہيں، حتى كہ فضائل ميں بھى ثابت نہيں، بلكہ اس كے متعلق كچھ تابعين سے بعض مقطوع آثار وارد ہيں، اور ان احاديث ميں موضوع يا ضعيف احاديث شامل ہيں جو اكثر جہالت والے علاقوں ميں پھيلى ہوئى ہيں.
ان ميں مشہور يہ ہے كہ اس رات عمريں لكھى جاتى ہيں اور آئندہ برس كے اعمال مقرر كيے جاتے ہيں.... الخ.
اس بنا پر اس رات كو عبادت كے ليے بيدار ہونا جائز نہيں اور نہ ہى پندرہ شعبان كا روزہ ركھنا جائز ہے، اور اس رات كو عبادت كے ليے مخصوص كرنا بھى جائز نہيں ہے، اكثر جاہل لوگوں كا اس رات عبادت كرنا معتبر شمار نہيں ہو گا "
واللہ تعالى اعلم
الشيخ ابن جبرين حفظہ اللہ
اگر كوئى شخص عام راتوں كى طرح اس رات بھى قيام كرنا چاہے ـ اس ميں كوئى اضافى اور زائد كام نہ ہو اور نہ ہى اس كى تخصيص كى گئى ہو ـ تو جس طرح وہ عام راتوں ميں عبادت كرتا تھا اس ميں بھى جائز ہے.
اور اسى طرح پندرہ شعبان كو روزے كے ليے مخصوص كرنا صحيح نہيں، ليكن اگر وہ اس بنا پر روزہ ركھ رہا ہے كہ يہ ايام بيض يعنى ہر ماہ كى تيرہ چودہ اور پندرہ تاريخ كو روزہ ركھنا مشروع ہے، يا پھر وہ جمعرات يا سوموار كا روزہ ركھتا تھا اور پندرہ شعبان اس كے موافق ہوئى تو اس اعتبار سے روزہ ركھنے ميں كوئى حرج نہيں، ليكن اس ميں اس كا اعتقاد نہيں ہونا چاہيے كہ اس سے اسے اجروثواب زيادہ حاصل ہو گا.


ايسى حديث جس ميں كسى فضيلت يا دعا پر ابھارا گيا ہو ليكن اس كى سند ضعيف ہو كے بارہ ميں علماء كرام كا موقف كيا ہے، برائے مہربانى اس كے متعلق ہم جواب چاہتے ہيں ؟

الحمد للہ:
فضائل اعمال ميں ضعيف حديث پر عمل كرنے ميں علماء كرام كا اختلاف پايا جاتا ہے، بعض علماء اس پر عمل كرنے كو كچھ شروط كے ساتھ جائز قرار ديتے ہيں، اور بعض علماء اس پر عمل كرنے سے منع كرتے ہيں.
حافظ ابن حجر رحمہ اللہ نے ضعيف حديث پر عمل كرنے كى شروط كا خلاصہ بيان كيا ہے جو درج ذيل ہے:
1 - ضعيف زيادہ شديد نہ ہو، اس ليے كسى ايسى حديث پر عمل نہيں كيا جائيگا جسے كسى ايك كذاب يا متہم بالكذب يا فحش غلط راوى نے انفرادى طور پر بيان كيا ہو.
2 - وہ حديث معمول بہ اصول كے تحت مندرج ہو.
3 - اس حديث پر عمل كرتے ہوئے اس كے ثابت ہونے كا اعتقاد نہ ركھا جائے، بلكہ احتياط كا اعتقاد ہو.
ضعيف حديث پر عمل كرنے كا معنى يہ نہيں كہ كسى ضعيف حديث ميں آنے كى بنا پر ہم اس عبادت كو مستحب قرار ديں، كيونكہ كسى بھى عالم دين نے ايسا نہيں كہا ـ جيسا كہ شيخ الاسلام ابن تيميہ كے كلام ميں آگے آئيگا ـ بلكہ اس كا معنى يہ ہے كہ جب كسى شرعى دليل سے كوئى معين عبادت كا استحباب ثابت ہو مثلا قيام الليل اور پھر قيام الليل كى فضيلت ميں كوئى ضعيف حديث آ جائے تو اس ضعيف حديث پر عمل كرنے ميں كوئى حرج نہيں.
اس پر عمل كا معنى يہ ہے كہ لوگوں اس عبادت كى ترغيب دلانے كے ليے يہ حديث روايت كى جائے، اور اميد ركھى جائے كہ ضعيف حديث ميں وارد شدہ ثواب عمل كرنے والے كو ملےگا كيونكہ اس حالت ميں ضعيف حديث پر عمل كرنے سے اس پر كوئى شرعى ممانعت مرتب نہيں ہوتى، مثلا كسى ايسى عبادت كو مستحب كہنا جو شريعت ميں ثابت نہيں، بلكہ اگر اسے يہ اجروثواب حاصل ہو جائے تو ٹھيك وگرنہ اسے كوئى نقصان و ضرر نہيں.
شيخ الاسلام ابن تيميہ رحمہ اللہ كہتے ہيں:
" شريعت ميں ان ضعيف احاديث پر جو نہ تو صحيح اور نہ ہى حسن ہوں اعتماد كرنا جائز نہيں، ليكن احمد بن حنبل وغيرہ دوسرے علماء نے فضائل اعمال ميں حديث روايت كرنا جائز قرار ديا ہے جبكہ اس كے متعلق يہ معلوم ہے كہ وہ جھوٹ نہيں، يہ اس ليے كہ جب عمل كے متعلق يہ معلوم ہو كہ وہ شرعى دليل كے ساتھ مشروع ہے، اور ايسى حديث روايت كى جس كے متعلق اسے علم نہ ہو كہ وہ جھوٹ ہے تو ثواب كا حق ہونا جائز ہے.
آئمہ ميں سے كسى نے بھى يہ نہيں كہا كہ كسى ضعيف حديث كى بنا پر كوئى چيز واجب يا مستحب قرار دى جائے، جو بھى ايسا كہتا ہے اس نے اجماع كى مخالفت كى... جس كے متعلق اسے علم ہو كہ يہ جھوٹ نہيں اسے ترغيب و ترھيب ميں روايت كرنا جائز ہے، ليكن اس ميں جس كے متعلق اس مجھول الحال كے علاوہ كسى اور دليل كى بنا پر علم ہو كہ اللہ تعالى نے اس ميں رغبت دلائى ہے، يا اس سے ڈرايا ہو. .
Copied from. ISALAM-QA

واللہ اعلم.
  Reply With Quote
Reply

Tags
aur, اور, main, رات, روزہ, ركھنا, شعبان, qiyam, raat, roza, shaban, نصف, پندرہ, قيام, كرنا

Thread Tools Search this Thread
Search this Thread:

Advanced Search
Display Modes Rate This Thread
Rate This Thread:

 
 

Best view in Firefox
Almuslimeen.info | BZU Multan | Dedicated server hosting
Note: All trademarks and copyrights held by respective owners. We will take action against any copyright violation if it is proved to us.

All times are GMT +5. The time now is 08:00 PM.


Powered by vBulletin® Version 3.8.2
Copyright ©2000 - 2024, Jelsoft Enterprises Ltd.