View Single Post
Old 07-12-2011, 12:55 AM   #1
Punjabi University kay liye Kalmae Khair
.BZU. .BZU. is offline 07-12-2011, 12:55 AM

پنجاب یونیورسٹی کیلئے کلمہٴ خیر..
Name:  ata-ul-haq qasmi.jpg
Views: 305
Size:  3.9 KB
مجھے یقین نہیں آتا تھا کہ ہمارا کوئی شعبہ تنزلی کی طرف جانے کی بجائے ترقی کی طرف بھی جا سکتا ہے۔ مگر دو روز قبل پنجاب یونیورسٹی کی ایک ”فیکٹ بک“ میرے ہاتھ لگی تو اسے پڑھتے ہوئے مجھے اپنی متذکرہ بدگمانی پر نظر ثانی کرنا پڑی۔ اس کتابچے کی وساطت سے معلوم ہوا کہ پچھلے تین چار برسوں میں نہ صرف یہ کہ یونیورسٹی سے وابستہ اساتذہ کی تحریر کردہ سالانہ کتب کی تعداد دوگنی سے زیادہ ہو گئی ہے بلکہ تحقیقی مقالات کی اشاعت اور سالانہ پی ایچ ڈی کی تعداد میں بھی قریباً تین گنا اضافہ ہوا ہے۔ 1990ء سے 2007ء تک جامعہ پنجاب سے کل 734پی ایچ ڈی اسکالر سامنے آئے اور اس کی اوسط 41پی ایچ ڈی سالانہ بنتی ہے جبکہ گزشتہ چار برسوں کی اوسط سالانہ پی ایچ ڈی کی تعداد 113ہے اور یہ یقینا اس جامعہ کی تاریخ میں ایک اہم سنگ میل ہے۔ متذکرہ ”فیکٹ بک“ ہمیں یہ بھی بتاتی ہے کہ جامعہ کے اساتذہ کے ”امپیکٹ فیکٹر“ جرائد میں 2007ء میں 162مقالات شائع ہوئے جبکہ 2010ء میں یہ تعداد 352تک پہنچ گئی۔ اس توقع کا اظہار کیا جا رہا ہے کہ سال رواں کے اختتام تک یہ تعداد 450سے بھی زیادہ ہو گی۔
گزشتہ چار برس سے پنجاب یونیورسٹی کے وائس چانسلر ڈاکٹر مجاہد کامران ہیں۔ وہ عالم ہیں اور علم دوست ہیں چنانچہ وہ اپنی تقرری کے پہلے دن سے آج تک پنجاب یونیورسٹی کی گم شدہ عظمت واپس لانے کی کوشش کر رہے ہیں اور کسی بھی یونیورسٹی کی عظمت محض فروغ علم ہی کے پیمانے سے ماپی جا سکتی ہے چنانچہ ڈاکٹر مجاہد کامران کی تمام تر کاوشوں کا رخ اسی سمت میں ہے۔ انہوں نے تحقیق کے لئے مختص رقم میں 20گنا اضافہ کیا ہے۔ 2007-2008ء کے بجٹ میں یہ رقم صرف چالیس لاکھ تھی جبکہ 2010-2011ء کے بجٹ میں رقم بڑھا کر سات کروڑ کر دی گئی ہے۔ اس دوران اساتذہ کی بیرون ملک کانفرنسوں میں شرکت بھی تین گنا بڑھ گئی ہے۔ ”فیکٹ بک“ کے مطابق گزشتہ چار برسوں میں کل 57 اساتذہ نے بیرون ملک منعقدہ کانفرنسوں میں شرکت کی اور یہ اوسط 47فیصد بنتی ہے۔ ڈاکٹر صاحب کی خواہش ہے کہ یونیورسٹی کے اساتذہ کی واضح اکثریت پی ایچ ڈی ہونا چاہئے اور باہر کی دنیا میں یہی صورتحال ہے جبکہ ہمارے ملک میں صرف 22فیصد اساتذہ پی ایچ ڈی ہیں۔ ڈاکٹرصاحب نے پی ایچ ڈی کے پروگرام کی دو سطحوں پر توجہ دی ہے۔
اساتذہ کو بیرون ملک پی ایچ ڈی کرنے کیلئے یونیورسٹی نے اپنے فنڈ میں سے ساڑھے سات کروڑ روپے مختص کئے اور وہ لوگ جن کے ایچ ای سی سے ملنے والے وظائف تاخیر کا شکار تھے انہیں فوری طور پر بیرون ملک بھیجا اور فنڈز کا انتظار کیا۔ اب ان کی تعداد پانچ سے بڑھ کر بارہ ہو گئی ہے۔ دوسری طرف پی ایچ ڈی کرنیوالے طلبہ و طالبات کی رجسٹریشن اور مقالات کی منظوری کے عمل کو بامعنی اور موثر بنا دیا گیا ہے تاکہ پی ایچ ڈی محض خانہ پری نہ ہو بلکہ اتنی ٹھوس بنیادوں پرہو کہ اس کا موازنہ ان ملکوں سے کیا جا سکے جہاں ڈگری علم کے حصول کے لئے ہوتی ہے محض ڈگری کے حصول کے لئے نہیں۔ اس وقت جامعہ میں پی ایچ ڈی طلبہ و طالبات کی تعداد 1750کے قریب ہے۔ خدا کرے یہ طلبہ و طالبات آگے چل کر پاکستان کو علمی گہوارہ بنانے میں اپنا کردار ادا کریں۔ ہاں ! ایک اور بات پاکستان میں جہاں سرکاری خزانے کو دونوں ہاتھوں سے لوٹا جاتا ہے وہاں پنجاب یونیورسٹی کی سرمایہ کاری ایک ارب اسی کروڑ سے بڑھا کر چار ارب ہو گئی ہے۔ ایک اہم بات یہ بھی کہ سائنسی علوم کے علاوہ زبانوں اور آرٹ کے فروغ کیلئے بھی بہت سنجیدگی سے کام ہو رہا ہے چنانچہ روسی، چینی، جاپانی، عبرانی، اطالوی، ہسپانوی اور دیگرزبانوں کی تدریس کا بھی آغاز کر دیا گیا ہے۔ اسی طرح مصوری ، موسیقی اور ڈرامے کے فروغ کیلئے بھی سنجیدہ کوششیں کی جا رہی ہیں۔
اس وقت پاکستان چاروں طرف سے مصائب میں گھرا ہوا ہے۔ اندرونی اور بیرونی خطرات کی وجہ سے قوم میں دن بدن مایوسی بڑھ رہی ہے۔ صرف یہی نہیں بلکہ چاروں طرف جہالت اپنا بھاڑ سا منہ کھولے کھڑی ہے اور ہم لوگ اس کا نوالہ بنتے چلے جا رہے ہیں۔ اس کی وجہ یہی ہے کہ ہم نے علم سے منہ موڑ لیا ہے۔ دنیا میں ایک باعزت قوم کی حیثیت سے زندہ رہنے کا نصب العین جہالت کی تاریکیوں میں ڈوب چکا ہے۔ ہمیں ایسی افرادی قوت درکار ہے جو نہ صرف علم کے ہر شعبے میں مہارت رکھتی ہو بلکہ وہ پاکستانی قوم کو صف اول کی قوم بنانے کے جذبے سے سرشار بھی ہو۔ میں ڈاکٹر مجاہد کامران سے ان دونوں مقاصد کی تکمیل کی خواہش رکھتا ہوں اور یہ خواہش بے جا نہیں کہ ایک تو علم کے شعبے میں ان کا شمار پاکستان کے سرکردہ افراد میں ہوتا ہے۔ وہ آٹھ کتابوں کے مصنف ہیں اور بیرون ملک جرائد میں ان کے 60سے زائد بہت وقیع مقالات شائع ہو چکے ہیں۔ ان کی تحقیقات نے یورپی اور امریکی پروفیسروں نے بھی داد تحسین وصول کی ہے۔ اشفاق احمد مرحوم بتاتے تھے کہ انہوں نے ڈاکٹر مجاہد کامران کی جدید فزکس کے بانیوں پر لکھی انعام یافتہ کتاب شام پانچ بجے پڑھنا شروع کی اور نہایت دلچسپ انداز میں ایک دقیق موضوع پر لکھی ہوئی یہ کتاب وہ ایک ہی نشست میں ختم کر کے اٹھے اورمتذکرہ بالا دوسرے مقصد سے وابستگی انہیں اپنے والد سید شبیر حسین شاہ سے ورثے میں ملی ہے جن کی اعلیٰ درجے کی صحافت اورلازوال حب الوطنی کے آگے کوئی سوالیہ نشان نہیں۔ سو میں ڈاکٹر مجاہد کامران سے بجا طور پر توقع رکھتا ہوں کہ وہ آئندہ برسوں میں بھی پنجاب یونیورسٹی سے ایسی نسل تیار کرنے کی کوششیں جاری رکھیں گے جو پاکستان کے خوبصورت مستقبل کی ضامن ہوں۔ اس کے لئے ضروری ہے کہ موجودہ پالیسیوں کا تسلسل جاری رکھا جائے بصورت دیگر سفر کا آغاز ایک بار پھر زیرو سے کرنا پڑے گا۔ آخر میں مجھے صرف یہ عرض کرنا ہے کہ ہم لوگ ہمہ وقت تنقید و تعریف میں مبتلا رہتے ہیں۔ ہمارے اخبارات، ہمارے ٹی وی چینل ہمہ وقت تصویر کا تاریک رخ پیش کرتے ہیں۔ تاریک رخ پیش کرنے کی ضرورت بھی ہوتی ہے لیکن کہیں روشنی کی کرن بھی تو دکھائیں ورنہ قوم مایوسی کی اتھاہ گہرائیوں میں گر جائے گی اور یاد رکھیں ایک مایوس قوم اپنی قوت سے بھی بے خبر ہونے لگتی ہے۔ اس کا دماغ شل ہو جاتا ہے اور پھر وہ بآسانی دشمن کا نوالہ بن جاتی ہے۔ہمارے چاروں طرف یہی صورتحال ہے تاہم جہاں کہیں ہمیں روشنی کی ایک کرن نظر آئے ہمیں اس کی نشاندہی ضرور کرنا چاہئے ۔ بیشتر جامعات کے تاریک ماحول کے مقابلے میں مجھے جامعہ پنجاب کی صورتحال بہت بہتر محسوس ہوئی ہے اور اس کاسہرا اس کے وائس چانسلر اور ان کی ٹیم کے سر ہے سو میں نے ان کے لئے کلمہٴ خیر کہا ہے مجھے امید ہے یہ کلمہٴ خیر ان کی ہمتوں کو مزید مہمیز دے گا۔


__________________
(¯`v´¯)
`*.¸.*`

¸.*´¸.*´¨) ¸.*´¨)
(¸.*´ (¸.
Bzu Forum

Don't cry because it's over, smile because it happened

 
.BZU.'s Avatar
.BZU.


Join Date: Sep 2007
Location: near Govt College of Science Multan Pakistan
Posts: 9,693
Contact Number: Removed
Program / Discipline: BSIT
Class Roll Number: 07-15
Views: 1339
Reply With Quote